بنگلہ دیش کی عدالت کا سابق چیف جسٹس کو گرفتار کرنے کا حکم
ڈھاکا: بنگلہ دیش کی عدالت نے سابق چیف جسٹس سریندر کمار سنہا سمیت دیگر افراد کو لاکھ ڈالر کے غبن کے الزامات پر گرفتار کرنے کا حکم دے دیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق استغاثہ خورشید عالم خان کا کہنا تھا کہ 'یہ تمام افراد مفرور تھے، سریندر کمار سنہا پر غبن کرنے اور ایک بینک اکاؤنٹ سے دوسرے اکاؤنٹ میں منی لانڈرنگ کا الزام تھا'۔
ڈھاکا کی عدالت کے سینئر جج کے ایم امرول کایش نے چارج شیٹ میں ان کے مفرور ہونے پر تمام ملزمان کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے۔
مزید پڑھیں: بنگلہ دیش: نوبل انعام یافتہ محمد یونس کو ضمانت مل گئی
عدالت نے پولیس کو ہدایت کی کہ 22 جنوری تک وارنٹ گرفتاری پر عمل کرکے رپورٹ جمع کرائی جائے۔
واضح رہے کہ 10 دسمبر کو اینٹی کرپشن کمیشن (اے سی سی) نے 11 افراد کے خلاف مقدمات درج کیے تھے۔
دیگر ملزمان میں فارمرز بینک کے سابق مینجنگ ڈائریکٹر اے کے ایم شمیم، سینئر ایگزیکٹو نائب صدر اور کریڈٹ ڈویژن کے سابق سربراہ غازی صلاح الدین، پہلے نائب صدر کریڈٹ ڈویژن سواپن کمار رائے، پہلے نائب صدر شفیع الدین عسکری، بینک کے آڈٹ کمیٹی کے سابق چیئرمین محب الحق چشتی اور نائب صدر لطف الحق شامل ہیں۔
بعد ازاں فارمرز بینک کا نام تبدیل کرکے پدما بینک رکھ دیا گیا تھا۔
اے سی سی نے گزشتہ سال اکتوبر میں کہا تھا کہ انہیں 2 تاجروں، شاہ جہاں اور نرینجان، کے فراڈ میں ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ رقم جسٹس سریندر کمار سنہا کے اکاؤنٹ میں ڈالی گئی ہے۔
جسٹس کمار سنہا، ملک میں عدلیہ کی خودمختاری کے حوالے سے فیصلوں سے پہچانے جاتے ہیں جو حکومت کے خلاف تھے تاہم وہ 2017 کے آخر میں جبری طور پر استعفیٰ لینے کے الزامات عائد کرتے ہوئے بنگلہ دیش چھوڑ کر بیرون ملک چلے گئے تھے۔
اپوزیشن جماعتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا تھا کہ نریندر کمار سنہا ایک ہندو تھے اور مسلمان اکثریت ملک میں ان کے عدالتی نظام چلانے پر سوالات اٹھائے جاتے تھے۔
68 سالہ نریندر کمار سنہا اس وقت شمالی امریکا میں قیام پذیر ہیں، وہ بنگلہ دیش میں ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے پہلے چیف جسٹس تھے، جنہیں 16 کروڑ کی مسلم اکثریت کی آبادی والے ملک میں چیف جسٹس کے عہدے پر تعینات کیا گیا تھا۔
ان کی روانگی ایسے وقت میں سامنے آئی تھی جب سپریم کورٹ کی جانب سے اکتوبر 2017 میں یہ بیان سامنے آیا تھا کہ دیگر ججز نے جسٹس ریندر کمار سنہا پر کرپشن کا الزام عائد کیا تھا اور ان کے ساتھ بینچ پر بیٹھنے سے انکار کردیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش کی عدالت کا نکاح نامے سے 'کنواری' کا لفظ نکالنے کا حکم
چند مہینوں بعد ہی جسٹس نریندر کمار سنہا نے سپریم کورٹ کی قیادت میں فیصلہ سنایا تھا جس کے تحت پارلیمنٹ سے اعلیٰ ججز کو برطرف کرنے کے اختیارات واپس لے لیے گئے تھے۔
فیصلے سے وزیر اعظم شیخ حسینہ کی جانب سے متعارف کرائی گئی آئینی ترمیم کا خاتمہ ہوگیا تھا۔
ملک سے باہر جانے سے قبل تحریری بیان میں انہوں نے حکومت کی جانب سے فیصلے پر تنقید پر برہمی کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ 'مجھے عدلیہ کی خودمختاری پر تشویش ہے'۔
بعد ازاں انہوں نے ایک کتاب لکھی جس میں انہوں نے الزام عائد کیا کہ ان سے جبری طور استعفیٰ لیا گیا تھا اور ملک چھوڑنے کا کہا گیا تھا۔