آرمی ایکٹ میں ترامیم کیلئے حکومت کے اپوزیشن سے رابطے
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پر آرمی ایکٹ اور آئین میں ترامیم کرنے کے لیے اپوزیشن جماعتوں سے رابطے شروع کر دیے۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس نومبر میں سپریم کورٹ نے حکومت کو ہدایت کی تھی کہ وہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پر ابہام دور کرے۔
مزید پڑھیں: حکومت نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے فیصلے پر نظرثانی درخواست دائر کردی
وزیر دفاع پرویز خٹک، علی محمد خان اور قاسم سوری سمیت پی ٹی آئی کے قانون سازوں کے وفد نے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سمیت پارٹی کے دیگر رہنماؤں سے ملاقات کی۔
زرداری ہاؤس میں ہونے والی اس ملاقات میں پیپلز پارٹی کے رہنماؤں میں راجہ پرویز اشرف، نیئر بخاری، شیری رحمٰن، رضا ربانی، شازیہ مری اور نوید قمر شامل تھے۔
پی پی پی کے ذرائع نے بتایا کہ اجلاس کے دوران بلاول بھٹو نے حکومت پر زور دیا کہ وہ آرمی ایکٹ میں ترامیم سے متعلق پارلیمانی قواعد و ضوابط پر عمل کریں۔
بعد ازاں چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے ٹویٹ میں تصدیق کی کہ 'سرکاری کمیٹی قانون سازی پر تبادلہ خیال کے لیے زرداری ہاؤس پہنچی'۔
انہوں نے مزید کہا کہ 'پیپلز پارٹی جمہوری قانون سازی کے عمل میں مثبت طور پر شامل ہونا چاہتی ہے، کچھ جماعتیں قانون سازی کے عمل کو آگے بڑھانا چاہتی ہیں'۔
بلاول بھٹو نے اپنی بات جاری کرتے ہوئے کہا کہ 'جتنی اہم قانون سازی ہے اتنا ہی اہم یہ ہے کہ ہم جمہوری عمل پر عمل پیرا ہوں اور پیپلز پارٹی دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر یہ مسئلہ اٹھائے گی'۔
مسلم لیگ (ن) کی آرمی ایکٹ ترمیمی بل کی حمایت
مسلم لیگ (ن) نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق آرمی ایکٹ ترمیمی بل کی حمایت کا فیصلہ کرلیا۔
حکومت نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے آرمی ایکٹ کی ترمیم کو اتفاق رائے سے پارلیمان سے منظور کرنے کے لیے مسلم لیگ (ن) اور اپوزیشن کی دیگر جماعتوں سے رابطہ کا فیصلہ کیا تھا۔
اس سلسلے میں وزیر دفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں سینیٹ کے قائد ایوان شبلی فراز اور وزیر مملکت پارلیمانی امور اعظم سواتی پر مشتمل وفد نے اپوزیشن لیڈر کے چیمبر میں مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں سے ملاقات کی۔
مسلم لیگ (ن) کی جانب سے سابق وزیر دفاع خواجہ آصف، سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق اور رانا تنویر نے حکومتی وفد سے ملاقات کی۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی کابینہ کا ہنگامی اجلاس، آرمی ایکٹ میں ترامیم منظور
اس موقع پر حکومتی وفد نے مسلم لیگ (ن) سے آرمی چیف کی مدت ملازمت سے متعلق قانون سازی پر حمایت کی درخواست کی۔
مذکورہ ملاقات کے بعد صحافیوں کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے پرویز خٹک نے بتایا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پر اپوزیشن کی دیگر جماعتوں سے بھی رابطے جاری ہیں۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ آج (2 جنوری کو) شام تک مشاورت کا عمل مکمل کر کے کل (3 جنوری) تک یہ معاملہ پارلیمان میں پیش کردیا جائے گا۔
دوسری جانب رہنما مسلم لیگ (ن) مشاہد اللہ خان نے بتایا کہ پارٹی نے آرمی ایکٹ ترمیمی بل کی مکمل حمایت کردی ہے۔
علاوہ ازیں مسلم لیگ (ن) کے اہم رہنما رانا ثنا اللہ نے بھی میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ مجھ تک یہ خبر پہنچی ہے جس کے مطابق مسلم لیگ(ن) نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ آرمی ایکٹ کی ترامیم پر غیرمشروط تعاون کیا جائے اور فوج کو بطور ادارے اور آرمی چیف کے عہدے کو متنازع نہ بنایا جائے، لہٰذا جو پارٹی کا فیصلہ ہے ہمارے تمام اراکین اس کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔
ادھر حکومتی اراکین کے ساتھ اجلاس کے بعد مسلم لیگ (ن) کے ذرائع نے بتایا کہ لندن میں موجود پارٹی قیادت نے بل کی اتفاق رائے سے منظوری کی ہدایت دی ہے۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: آرمی چیف کی مدت ملازمت میں 6 ماہ کی مشروط توسیع
علاوہ ازیں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پر غور کے لیے مسلم لیگ (ن) کی مشترکہ پارلیمانی پارٹی کا اجلاس راجا ظفرالحق کی صدارت میں منعقد ہوا۔
اس اجلاس میں اراکین کو حکومتی وفد کے ساتھ ہونے والی ملاقات پر بریفنگ دی گئی جس پر پارٹی ارکان نے آرمی چیف کی مدت ملازمت کے توسیعی بل کو متفقہ طور پر منظور کرانے کا عندیہ دیا۔
اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے ذرائع نے بتایا کہ پارلیمانی پارٹی کے اراکین کا موقف تھا کہ اپوزیشن کو ایک ساتھ ہو کر اس معاملے پر آگے بڑھنا ہوگا۔
ذرائع نے بتایا کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے اس حوالے سے اپنے پیغام میں کہا کہ ان کی جماعت آرمی چیف کے عہدے کو متنازع نہیں بنانا چاہتی اس لیے پارٹی آرمی ایکٹ میں ترمیم کی غیر مشروط حمایت کرے گی۔
یہ بھی پڑھیں: مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ: سپریم کورٹ کے اہم ریمارکس و نکات
واضح رہے کہ گزشتہ روز کابینہ کے ہنگامی اجلاس میں آئین کی دفعہ 172 اور آرمی ایکٹ 1952 میں ترمیم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا کیونکہ اس اجلاس کا واحد ایجنڈا آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع تھا۔
آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے قواعد میں ابہام دور کرنے کے سپریم کورٹ کے دیے گئے حکم کی روشنی میں حکومت نے آئین اور آرمی ایکٹ میں ترمیم کے لیے بل پارلیمان میں پیش کرنے سے قبل اس معاملے پر اتفاق رائے کے لیے اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کرنے کا فیصلہ بھی کیا تھا۔
کابینہ کے ایک رکن نے بتایا تھا کہ ’ترمیم کے مطابق، آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی صورت میں ان کی ریٹائرمنٹ کی زیادہ سے زیدہ عمر 64 برس ہوجائے گی جبکہ عمومی عمر 60 سال ہی رہے گی‘ اور وزیراعظم کا استحقاق ہے کہ مستقبل میں آرمی چیف کو توسیع دے دیں۔
خیال رہے کہ 28 نومبر کو سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اگلے 6 ماہ تک پاک فوج کے سربراہ ہوں گے اور اس دوران حکومت پارلیمنٹ کے ذریعے سے آرمی چیف کی توسیع اور تعیناتی پر قانون سازی کرے۔
سپریم کورٹ نے 26 نومبر کو درخواست کی پہلی سماعت میں وفاقی حکومت کی جانب سے آرمی چیف کی مدت کے حوالے سےاگست میں جاری کیے گئے نوٹی فکیشن کو معطل کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس حوالے سے قانون موجود نہیں ہے۔
بعد ازاں اپنے تفصیلی فیصلے میں عدالت عظمیٰ نے کہا تھا کہ آرمی سے متعلق قوانین کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ جنرل اور آرمی چیف کی مدت اور ریٹائرمنٹ کی عمر کے ساتھ ساتھ مدت میں توسیع یا ازسر نو تعیناتی کے حوالے سے کوئی شق موجود نہیں ہے۔
فیصلے میں کہا گیا تھا کہ وزارت دفاع کی جانب سے آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی، توسیع اور از سرنو تعیناتی کے لیے جاری کی گئی سمری جس کی منظوری صدر، وزیراعظم اور کابینہ نے دی، بے معنیٰ ہے اور قانونی خلا پر کوئی اثر نہیں پڑا۔
عدالت عظمیٰ نے کہا تھا کہ اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کروائی ہے کہ وفاقی حکومت حاضر سروس جنرل اور آرمی چیف کی سروس کے حوالے سے 6 ماہ کے اندر ایک ایکٹ کی شکل میں پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی کرے گی۔
بعد ازاں دسمبر کے اواخر میں وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی درخواست دائر کی تھی اور فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی۔
علاوہ ازیں 2 جنوری کو فاقی حکومت نے آرمی چیف کی مدت ملازمت سے متعلق دیے گئے 28 نومبر 2019 کے فیصلے پر حکم امتناع مانگتے ہوئے ایک متفرق درخواست دائر کی تھی۔