• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

24 گھنٹے کے نوٹس پر پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے اجلاس طلب

شائع January 1, 2020
آئین کی دفعہ 54 کے مطابق ایک سال میں قومی اسمبلی کے کم از کم 2 سے 3 اجلاس ہونے چاہئیں—فائل فوٹو: اے پی پی
آئین کی دفعہ 54 کے مطابق ایک سال میں قومی اسمبلی کے کم از کم 2 سے 3 اجلاس ہونے چاہئیں—فائل فوٹو: اے پی پی

اسلام آباد: حکومت نے حیرت انگیز طور پر 24 گھنٹے کے نوٹس پر پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے اجلاس طلب کرلیے۔

دوسری جانب اپوزیشن بھی حیران نظر آئی کہ ایسی کیا ضرورت تھی کہ پارلیمان کے اجلاس اتنی عجلت میں بلائے گئے، تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ مقننہ کو حالیہ اہم پیش رفتوں پر اعتماد میں لینے کے لیے کیا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس ضمن میں جب سینیٹر رضا ربانی سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ انہیں 24 گھنٹے میں اجلاس طلب کرنے کی وجہ سمجھ نہیں آرہی جبکہ دھند کے باعث دیگر شہروں سے تعلق رکھنے والے اراکین کو اسلام آباد پہنچنے میں دشواری ہوگی۔

انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ سینیٹ کا اجلاس اپوزیشن کی جانب سے درخواست دینے کے ایک روز بعد ہی طلب کرلیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: قومی اسمبلی میں بھارت کے ‘مسلم مخالف’ قانون کے خلاف قرارداد منظور

رضا ربانی کا کہنا تھا کہ سینیٹ کا اجلاس ایک سو 24 روز کے وقفے کے بعد ہورہا ہے جبکہ اس دوران صرف ایک اجلاس درخواست پر بلایا گیا، حکومت پارلیمان کو نظر انداز کررہی ہے۔

یاد رہے کہ معمول کے مطابق سینیٹ کے آخری اجلاس 29 اگست سے 3 ستمبر تک ہوئے تھے جبکہ قومی اسمبلی کا گزشتہ اجلاس 16 دسمبر کو اچانک ملتوی ہوگیا تھا۔

مذکورہ سیشن کو بزنس ایڈوائزری کمیٹی کے فیصلے کے مطابق 20 دسمبر تک جاری رہنا تھا لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر جلد ہی ملتوی کردیا گیا تھا۔

سینیٹر رضا ربانی کا کہنا تھا کہ آئین کی دفعہ 54 کے تحت صدر مملکت کو جب مناسب لگے وقتاً فوقتاً ایک ایوان یا پارلیمان کے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس طلب اور ملتوی کرسکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: سینیٹ: اپوزیشن کا نیب قانون میں ترمیم نامنظور کرنے کا عندیہ

آئین کی دفعہ 54 کے مطابق ایک سال میں قومی اسمبلی کے کم از کم 2 سے 3 اجلاس ہونے چاہئیں اور ایک اجلاس کے بعد دوسرے اجلاس کے انعقاد تک کے ایک سو 20 دن سے زائد کا وقفہ نہیں ہونا چاہیے۔

رضا ربانی کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب آئین کے شق کو مسلسل نظر انداز کیا جارہا ہے اور اب وہ اتنے مختصر نوٹس پر اجلاس طلب کر رہی ہے۔

علاوہ ازیں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی رہنما سینیٹر شیری رحمٰن نے بھی 48 گھنٹے کا ٹائم دیے بغیر سینیٹ کا اجلاس بلانے کو نامناسب قرار دیا اور کہا کہ اس سے سینیٹرز کو دشواری کا سامنا ہوگا کیوں کہ اسموگ کے سبب پروازیں دستیاب نہیں ہیں تو سندھ اور بلوچستان سے آنے والے کس طرح پہنچ سکیں گے۔

اسی حوالے سے رکنِ قومی اسمبلی شازیہ مری کا کہنا تھا کہ ’عقل سے خالی حکومت پارلیمان کو بھی اسی بے ہنگم انداز میں چلانا چاہتی ہے جس طرح ملک چلا رہی ہے‘۔

انہوں نے بتایا کہ منگل کی شام 5 بجے اراکین اسمبلی کو میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ اجلاس اگلے ہی روز ہوگا جس کے لیے نہ تو اراکین کو اعتماد میں لیا گیا نہ ہی کوئی نوٹیفکیشن جاری ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ میں ’آرڈیننس کے ذریعے حکمرانی‘ پر تنازع شدت اختیار کرگیا

سینیٹ میں قائد ایوان سینیٹر شبلی فراز نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کا ردِ عمل حیرت انگیز ہے کیوں کہ اجلاس انہی کی درخواست پر بلایا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ جب اجلاس کے لیے درخواست سینیٹ سیکریٹری کے پاس جمع کروائی گئی تو انہوں نے سینیٹ میں قائد حزب اختلاف راجا ظفرالحق اور شیری رحمٰن کے ساتھ دیگر پارلیمانی رہنماؤں سے رابطہ کر کے بتایا تھا کہ حکومت ان کی درخواست پر سینیٹ کا سیشن طلب کررہی ہے جس کے لیے 14 روز درکار ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ اجلاس سے لے کر اب تک متعدد اہم پیش رفت ہوچکی ہیں جس پر حکومت ایوان کو اعتماد میں لینا چاہتی ہے اور وزیراعظم عمران خان بھی سینیٹ اجلاس میں شرکت کریں گے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024