مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرنے سے قبل ہی کانگریس کے 4 رہنما نظر بند
مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی اپوزیشن جماعت کانگریس کے 4 مقامی رہنماؤں کو وادی کے دورے سے قبل نظر بند کردیا گیا۔
ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ریاستی قانون ساز کونسل کے سابق رکن اور جموں و کشمیر کانگریس کے چیف ترجمان رویندر شرما نے بتایا کہ 'جموں و کشمیر پردیش کانگریس کمیٹی (جے کے پی سی سی) کے صدر اور سابق وزیر غلام احمد میر، قانون ساز اسمبلی کے سابق اسپیکر تارا چند، سابق وزیر رمن بھلہ اور پی وائی سی کے صدر اُدے بھانو چِھب کو آج صبح گھر میں نظربند کیا گیا'۔
مزید پڑھیں: اقوام متحدہ کا مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی مکمل بحالی کا مطالبہ
انہوں نے مزید بتایا کہ پارٹی کے بہت سے دیگر رہنماؤں پر بھی پابندیاں عائد کردی گئی ہیں۔
جے کے پی سی سی کے صدر غلام احمد میر نے بتایا کہ 'ہم نے گزشتہ روز انتظامیہ کو آگاہ کیا کہ پارٹی کے وفد کو ادھم پور، بٹوٹے، رامبن اور پھر اننت ناگ اور سری نگر لے کر جائیں گے اور پارٹی کارکنوں سے ملاقات کرکے نچلی سطح سے پارٹی کی سرگرمیوں کا آغاز کریں گے'۔
سابق وزیر غلام احمد میر نے دعوی کیا کہ انتظامیہ نے اس کی اجازت دے دی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ 'تاہم آج صبح مجھے اور میرے سینئر ساتھیوں رمن بھلا اور تارا چند کو نظر بند کردیا گیا'۔
نظر بندی سے متعلق مقامی ایس ایچ او نے سیاسی رہنماؤں کو بتایا کہ انہیں اعلیٰ حکام سے اس کی ہدایات ملی ہیں۔
سابق وزیر غلام احمد میر نے اپوزیشن کی آواز کو دبانے کے لیے اسے حکومت کی حکمت عملی قرار دیا۔
یہ بھی پڑھیں: کشمیر پر بھارتی قبضے کے 72 برس مکمل، دنیا بھر میں یوم سیاہ
پی وائی سی کے صدر اُدے بھانو چِھب نے بتایا کہ مجھے گھر سے نظر بند کردیا گیا کیونکہ میں کانگریس کے وفد کا حصہ تھا، جس کو سری نگر سمیت دیگر علاقوں کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے کشمیر جانا پڑا۔
انہوں نے بتایا کہ مودی حکومت یورپی ارکین پارلیمنٹ کو تو مقبوضہ کشمیر میں مدعو کرسکتی ہے لیکن کانگریس قائدین کو اپنے ہی ملک کے لوگوں سے بات کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی۔
واضح رہے کہ کانگریس رہنماؤں کی نظر بندی کا واقعہ ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب گزشتہ روز ہی بھارتی حکومت نے سری نگر میں نظر بند 5 سیاستدانوں کو رہا کیا تھا۔
نریندر مودی کی حکومت نے آئین کے آرٹیکل 370 کو کالعدم قرار دے کر مقبوضہ کشمیر کو دی جانے والی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے بعد ان رہنماؤں کو اپنی تحویل میں لیا تھا۔
تاہم 3 سابق وزرائے اعلیٰ نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ، ان کے بیٹے عمر عبداللہ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے صدر محبوبہ مفتی تاحال حراست میں ہیں۔
مزید پڑھیں: ایل او سی پر جارحیت جاری، بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر مسلسل دوسرے روز طلب
نریندر مودی کی حکومت نے ان کی رہائی کے لیے کوئی حتمی تاریخ نہیں دی اور محض موقف اختیار کیا کہ انہیں ایک 'مناسب' وقت پر رہا کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ رواں برس اگست میں بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے کشمیر کو اپنی اکائی بنا دیا تھا جس کے بعد سے نافذ کرفیو میں وہاں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری ہے۔
خیال رہے کہ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق (یو این ایچ سی آر) نے بھارت کے زیر تسلط جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی پر ‘شدید تشویش’ کا اظہار کرتے ہوئے مقبوضہ خطے میں تمام حقوق کو مکمل طور پر بحال کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
یو این ایچ سی آر کے ترجمان روپرٹ کولویل نے ایک بیان میں کہا کہ ‘بھارتی زیر تسلط کشمیر میں عوام کے بڑے پیمانے پر انسانی حقوق سے محروم ہونے پر شدید تشویش ہے اور ہم بھارت کی حکومت پر زور دیتے ہیں کہ معمول کی صورت حال کو بحال کریں’۔
مزید پڑھیں: بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی، صدارتی فرمان جاری
روپرٹ کولویل نے کہا تھا کہ ‘احتجاج کے دوران پیلٹ گنز، آنسو گیس اور ربڑ کی گولیاں سمیت فورسز کے جارحانہ استعمال کے حوالے سے کئی الزامات ہیں اور غیر مصدقہ رپورٹ کے مطابق 5 اگست سے تاحال مختلف واقعات میں کم از کم 6 شہریوں کو قتل کیا گیا اور کئی افراد زخمی ہوئے’۔
بھارتی عدالتی نظام پر تنقید کرتے ہوئے یو این ایچ سی آر کا کہنا تھا کہ ‘سپریم کورٹ آف انڈیا نے نقل و حرکت کی آزادی اور میڈیا پر عائد پابندیوں کے حوالے سے دائر درخواستوں پر سست عمل کیا جارہا ہے’۔
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کیا ہے؟
واضح رہے کہ آرٹیکل 370 کے تحت ریاست جموں اور کشمیر کو خصوصی اور منفرد مقام حاصل ہے اور آرٹیکل ریاست کو آئین بنانے اور اسے برقرار رکھنے کی آزادی دیتا ہے۔
اس خصوصی آئینی دفعہ کے تحت دفاعی، مالیاتی اور خارجہ امور وغیرہ کو چھوڑ کر کسی اور معاملے میں وفاقی حکومت، مرکزی پارلیمان اور ریاستی حکومت کی توثیق و منظوری کے بغیر بھارتی قوانین کا نفاذ ریاست جموں و کشمیر میں نہیں کر سکتی۔
بھارتی آئین کے آرٹیکل 360 کے تحت وفاقی حکومت کسی بھی ریاست یا پورے ملک میں مالیاتی ایمرجنسی نافذ کر سکتی ہے، تاہم آرٹیکل 370 کے تحت بھارتی حکومت کو جموں و کشمیر میں اس اقدام کی اجازت نہیں تھی۔
مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والا آرٹیکل 35 'اے' اسی آرٹیکل کا حصہ ہے جو ریاست کی قانون ساز اسمبلی کو ریاست کے مستقل شہریوں کے خصوصی حقوق اور استحقاق کی تعریف کے اختیارات دیتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت نے کنٹرول لائن پر کلسٹر بم سے شہریوں کو نشانہ بنایا، آئی ایس پی آر
1954 کے صدارتی حکم نامے کے تحت آرٹیکل 35 'اے' آئین میں شامل کیا گیا جو مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کو خصوصی حقوق اور استحقاق فراہم کرتا ہے۔
اس آرٹیکل کے مطابق صرف مقبوضہ کشمیر میں پیدا ہونے والا شخص ہی وہاں کا شہری ہو سکتا ہے۔
آرٹیکل 35 'اے' کے تحت مقبوضہ وادی کے باہر سے کسی شہری سے شادی کرنے والی خواتین جائیداد کے حقوق سے محروم رہتی ہیں، جبکہ آئین کے تحت بھارت کی کسی اور ریاست کا شہری مقبوضہ کشمیر میں جائیداد خریدنے اور مستقل رہائش اختیار کرنے کا حق نہیں رکھتا۔
آئین کے آرٹیکل 35 'اے' کے تحت مقبوضہ کشمیر کی حکومت کسی اور ریاست کے شہری کو اپنی ریاست میں ملازمت بھی نہیں دے سکتی۔