نیب ترمیمی آرڈیننس کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست
اسلام آباد: لاہور ہائی کورٹ کے بعد قومی احتساب آرڈیننس (دوسری ترمیم) 2019 کو سرکاری افسران اور تاجروں کو فائدہ پہنچانے کی بنیاد پر سپریم کورٹ میں بھی چیلنج کردیا گیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق صحافی فرخ نواز بھٹی نے ایڈووکیٹ ڈاکٹر جی ایم چوہدری کے ذریعے درخواست دائر کی جس میں استدعا کی گئی کہ درخواست کا فیصلہ ہونے تک نئے آرڈیننس کے افعال کو معطل کیا جائے۔
خیال رہے کہ 26 دسمبر کو حکومت نے قومی احتساب آرڈیننس 1999 میں ترمیم کے لیے آرڈیننس نافذ کر کے تاجروں اور بیوروکریٹس کو ریلیف فراہم کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: نیب ترمیمی آرڈیننس 2019 کا نوٹی فکیشن جاری
عدالت عظمیٰ میں دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ نیا قانون نیک نیتی کے بہانے طریقہ کار کی خلاف ورزی کرنے کے لیے راہ فراہم کرتا ہے جس سے سرکاری افسران اور سول سرونٹس کو مبینہ طور پر ریاست کے معاملات اپنی منشا کے مطابق چلانے کی اجازت حاصل ہوگی۔
درخواست گزار کا مزید کہنا تھا کہ اس کے دفاع میں کہا جاسکتا ہے کہ اس آرڈیننس کی صرف چند شقیں آئین کے دائرے سے باہر ہیں جبکہ کچھ اس کے مطابق ہیں۔
تاہم ان شقوں کو آرڈیننس سے علیحدہ کرنا مشکل ہے کیوں کہ یہ آرڈیننس کا پورا قانونی ڈھانچہ خراب کردیں گی، جس سے اس کی عدالتی جانچ پڑتال اور اچھے حصے کو برے حصے سے الگ کرنے کے لیے آئین کی دفعہ 8 کے تحت اس پر نظر ثانی ناممکن ہے۔
مزید پڑھیں: نیب آرڈیننس کا مقصد تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ کرنا ہے، وزیر اعظم
درخواست گزار کا مزید کہنا تھا کہ انصاف، مساوات، قانون کی حکمرانی، قانون کے ضوابط اور طریقہ کار، استحصال اور امتیازی سلوک کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ آرڈیننس کو آغاز سے ہی غلط اور آئین کے دائرے سے باہر قرار دیا جائے۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ نیا آرڈیننس بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے جس کی ضمانت آئین میں دفعہ 3 کے تحت استحصال کے خاتمے اور دفعہ 4 کے تحت قانون کی حکمرانی کے حوالے سے دی گئی ہے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ نئے آرڈیننس کا مقصد امتیاز نہ برتنے، استحصال نہ کرنے کے جمہوری اصولوں اور عوام کی طاقت اور ایگزیکٹو اتھارٹی کی بطور ایک مقدس امانت کے خلاف عوام اور معاشرے کو ’معاشی طبقات کی بنیاد‘ پر تقسیم کرنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نیب ترمیمی آرڈیننس سپریم کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج
درخواست میں کہا گیا کہ جب پوری دنیا تاجروں کی استحصالی اور غیر قانونی سرگرمیوں کی جانچ پڑتال کے لیے سخت ریگولیٹری نظام پر عمل کررہی ہے تو یہ نیا آرڈیننس اس کے بالکل برعکس کام کررہا ہے۔
درخواست گزار کے مطابق وفاقی حکومت آئین کی دفعہ 212 کے تحت اپنی قانونی ذمہ داری ادا کرنے کے بجائے اپنی آئینی ذمہ داری نبھانے میں ناکام ہوگئی ہے اور وہ ایگزیکٹو اور ان کے حلیفوں کو محفوظ کررہی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کو ٹیکس دہندگان اور وفادار شہریوں کی حمایت کرنی چاہیے تاکہ قانون پر عمل درآمد کو فروغ دیا جاسکے لیکن وہ اس کے بجائے ٹیکس چوروں اور بدعنوان عناصر کے ساتھ کھڑی ہے۔
درخواست گزار کا موقف تھا کہ اس آرڈیننس سے ثابت ہوگیا کہ وفاقی حکومت آئین کی خلاف ورزی کیے بغیر قانون کی حکمرانی پر مبنی کسی قسم کے امتیاز کے بغیر منصفانہ اور آزاد معاشی نظام قائم کرنے میں ناکام ہوگئی ہے۔