بھارتی ریاست کی مظاہرین کو جائیدادیں ضبط کرنے کی دھمکی
بھارت کی شمالی ریاست اتر پردیش نے متنازع شہریت کے قانون کے خلاف احتجاج میں شریک 200 سے زائد مظاہرین سے سرکاری جائیدادوں کو پہنچنے والے نقصان کے ازالے کا مطالبہ کرتے ہوئے ان کی جائیدادیں ضبط کرنے کی دھمکی دے دی۔
خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق اترپردیش حکومت کے عہدیداروں کا کہنا تھا کہ کم ازکم 230 نوٹس جاری کیے گئے ہیں جن میں سے اکثریت مسلمانوں کو بھیجے گئے ہیں اور نوٹس میں کروڑوں کے نقصان کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق تاحال یہ واضح نہیں ہے کہ کتنے افراد کو احتجاج اور دیگر جرائم میں ملوث قرار دیا گیا ہے تاہم اب تک کسی کو سزا نہیں دی گئی جبکہ ریاستی عہدیداروں نے احتجاج کا الزام مسلمان مظاہرین پر عائد کیا تھا۔
مزید پڑھیں:بھارت میں بھی مودی کو 'ہٹلر' سے تشبیہ دی جانے لگی
خیال رہے کہ آبادی کے لحاظ سے بھارت کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف پرتشدد احتجاج ہوا تھا۔
بھارت بھر میں ہونے والے مظاہروں کے دوران ہونے والی 25 سے زائد ہلاکتوں میں سے 15 سے زیائد صرف اترپرادیش میں ہوئی تھیں جہاں مسلمان اور انتہا پسند ہندو گروپوں کے درمیان جھڑپیں ہوئی تھیں۔
رپورٹ کے مطابق رامپور کے علاقے کے رہائشی محمد فہیم کو بھی ریاست کی جانب سے نوٹس موصول ہوا ہے جبکہ ان کے بہنوئی محمد محمود پولیس کی حراست میں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘محمود نے احتجاج میں شرکت نہیں کی تھی اور اس وقت وہ گھر میں موجود تھے لیکن پولیس نے انہیں اب تک حراست میں رکھا ہوا ہے’۔
محمد فہیم کا کہنا تھا ‘محمود لکڑی کی گاڑی میں مچھلی فروخت کرکے گزارہ کرتا ہے اور ان کی مالی حیثیت تو وکیل کرنے کی بھی نہیں ہے ایسے میں وہ جرمانہ کیسے ادا کرے گا’۔
یہ بھی پڑھیں:شہریت قانون کے خلاف احتجاج پر جرمن طالبعلم کو بھارت چھوڑنے کا حکم
دوسری جانب اترپردیش حکومت کے ترجمان مریتنجے کمار کا کہنا تھا کہ حکام سرکاری املاک کو پہنچنے والے نقصان اور بھیجے گئے نوٹسز کا جائزہ لیں گے۔
ریاستی پولیس کے سابق سربراہ وکرم سنگھ نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ‘اس طرح کے نوٹسز قبل از وقت ہیں، آپ شکایت نہیں کرسکتے اور نہ ہی خود انصاف کرسکتے ہیں اس لیے ریاست کو نقصانات کا جائزہ لینے کے لیے ایک اتھارٹی بنانے کی ضرورت ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘100 نوٹسز بھیج کر 50 پر کارروائی کرنا اور 2 میں کامیابی حاصل کرنا زیادہ نقصان دہ ہے’۔
واضح رہے کہ بھارت میں متنازع شہریت قانون کے خلاف پرتشدد احتجاج کا سلسلہ جاری ہے، جس میں اب تک درجنوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ مختلف ریاستوں میں احتجاج پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔
متنازع شہریت قانون کے خلاف طلبہ اورمسلمانوں سمیت ہزاروں شہریوں کی جانب سے احتجاج کیا جارہا ہے۔
مزید پڑھیں:متنازع شہریت ترمیمی بل کی منظوری، بنگلہ دیشی وزرا کا دورہ بھارت منسوخ
بھارت کے ایوان زیریں (لوک سبھا) میں متنازع بل 9 دسمبر 2019 اور ایوان بالا(لوک راجیا سبھا) میں11 دسمبر کو منظور ہوا تھا جس کے اگلے روز بھارتی صدر نے اس بل پر دستخط کردیے تھے جس کے بعد یہ بل قانون بن گیا تھا۔
اس قانون کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے 2015 سے قبل بھارت میں داخل ہونے والے غیر مسلم تارکین وطن ہندو، عیسائی، پارسی، سکھ، جینز اور بدھ مت کے ماننے والوں کو بھارتی شہریت فراہم کی جائے گی، اس قانون کے تحت 1955 کے شہریت ایکٹ میں ترمیم کر کے منتخب کیٹیگریز کے غیرقانونی تارکین وطن کو بھارتی شہریت کا اہل قرار دیا جائے گا۔