خیبرپختونخوا: 'مسلم فیملی لا ترمیمی بل قرآن و سنت سے متصادم ہے'
پشاور: خیبر پختونخوا اسمبلی میں زیرغور 'مسلم فیملی لا' کے مجوزہ ترمیمی مسودے پر مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں نے تحفظات کا اظہار کردیا، جس کے بعد حکومت نے مذکورہ بل کی منظوری ملتوی کردی۔
مزیدپڑھیں: لاہور: پہلی بیوی کی مرضی کے بغیر دوسری شادی، شوہر کو قید کی سزا
صوبائی اسمبلی کے اسپیکر مشتاق احمد غنی کی زیرصدارت اجلاس میں مسلم فیملی لاز (ترمیمی) بل 2019 مشاورت کے مرحلے میں تھا جب مذہبی سیاسی اتحاد متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے قانون ساز عنایت اللہ خان نے اس ترمیمی مسودے پر اعتراض اٹھایا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ بل کی چند شقیں قرآن پاک اور سنت کی تعیمات سے متصادم ہیں، ساتھ ہی انہوں نے مطالبہ کیا کہ مذکورہ ترمیمی بل کو رائے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کے پاس بھیج دیا جائے۔
علاوہ ازیں اس مذہبی سیاسی اتحاد کے دوسرے ایم پی اے نے عنایت اللہ خان نے اپنے ساتھی رکن کی بات کی حمایت کی۔
تاہم بل کی منظوری کے لیے قرارداد پیش کرنے والے وزیر بلدیات شہرام ترکئی نے کہا کہ اس مسودہ کو اسمبلی میں پیش کرنے سے قبل نظریاتی کونسل نے کلیئر کردیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ یہ ترمیمی بل اہل تشیع (فقہ جعفریہ) سے تعلق رکھنے والے تمام مسلمانوں پر خصوصی طور پر لاگو تھا۔
یہ بھی پڑھیں: احتساب عدالتوں کی نگرانی کا کوئی نظام نہیں، سینیٹ کمیٹی
تاہم متحدہ مجلس عمل کے اراکین صوبائی اسمبلی بل کو اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجنے کا مطالبہ جاری رکھا، جس پر حکومتی وزیر نے ان اراکین کی بات سے اتفاق کیا اور بل کی منظوری کو موخر کردیا۔
انہوں نے کہا کہ مسودہ بل کونسل کو واپس بھیج دیا جائے گا۔
واضح رہے کہ ترمیمی بل کے مطابق اگر اہل تشیع مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے مسلمان مرد کا انتقال ہوجاتا ہے ان کی بیوہ کو اس کی جائیداد سے ایک چوتھائی حصہ ملے گا اور اگر متوفی نے ایک سے زیادہ بیوائیں چھوڑی ہیں تو ان بیوائوں کو جائیداد کے ایک چوتھائی حصے میں سے سب کو برابر کا حصہ ملے گا
علاوہ ازیں ذیلی دفعہ (2) کے حوالے سے اختلاف رائے کے نتیجے تنازع کی صورت میں فریقین یا کسی بھی فریقین کا کسی بھی کسی دائرہ اختیار کی عدالت یا مجتہد عالم سے رجوع ہوسکتا ہے۔
علاوہ ازیں اجلاس میں اسمبلی نے خیبرپختونخوا جرنلسٹ ویلفیئر انڈومنٹ فنڈ (ترمیمی) بل 2019 منظور کیا۔
مزیدپڑھیں: احسن اقبال کو چُپ رہنے اور پیچھے ہٹنے کے پیغامات دیے جاتے رہے، مریم اورنگزیب
قبل ازیں ایوان میں موجود اپوزیشن نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال کی گرفتاری پر احتجاج کیا اور قانون سازوں نے اسپیکر کے سامنے پلے کارڈز اٹھائے۔
حزب اختلاف کے رہنما اکرم خان درانی نے کہا کہ حکومت، قومی احتساب بیورو (نیب) اور وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کو اپنے سیاسی حریفوں کو بلیک میل کرنے کے لیے استعمال کررہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ نیب کے ذریعے مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال کی گرفتاری غیر قانونی ہے اور انہیں (احسن اقبال) کو سیاستدانوں کو سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کی وجہ سے گرفتار کیا گیا۔
اکرام درانی کا کہنا تھا کہ حکومت ایف آئی اے کو ختم کرنے پر تلی ہوئی ہے، ایف آئی اے نے مسلم لیگ (ن) کے 3 رہنماؤں جبکہ نیب نے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو طلب کیا۔
ادھر ایم پی اے سردار حسین بابک، سردار یوسف اور شیراعظم وزیر نے بھی ن لیگ کے رہنما کی گرفتاری کی مذمت کی۔
مزیدپڑھیں: نارووال اسپورٹس سٹی کیس: مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال گرفتار
انہوں نے 27 دسمبر کو پیپلز پارٹی کو شہر میں عوامی جلسہ کرنے کی اجازت نہ دینے پر راولپنڈی کی انتظامیہ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔
شمالی وزیرستان کے قبائلی ضلع کے ایم پی اے میر کلام نے کہا کہ 'فاٹا میں سیکیورٹی فورسز نے عسکریت پسندوں کے خلاف سیکڑوں آپریشن کیے لیکن امن بحال نہیں ہوا'۔
ان کا کہنا تھا کہ شمالی وزیرستان کے قبائلی ضلع میں بے گھر افراد ابھی تک اپنے گھروں کو واپس نہیں آئے ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہزاروں افراد جو جون 2014 میں فوجی آپریشن کے آغاز کے بعد شمالی وزیرستان کے علاقے سے نقل مکانی کرگئے تھے اب اپنے علاقے میں موجودہ غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے افغانستان میں رہائش پذیر ہیں۔
یہ خبر 25 دسمبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی