• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

منشیات کیس: رانا ثنااللہ کی ضمانت منظور، رہائی کا حکم

شائع December 24, 2019
رانا ثنا اللہ کو منشیات برآمد ہونے پر گرفتار کیا گیا تھا—فائل فوٹو: ڈان نیوز
رانا ثنا اللہ کو منشیات برآمد ہونے پر گرفتار کیا گیا تھا—فائل فوٹو: ڈان نیوز

لاہور ہائی کورٹ نے منشیات برآمدگی کیس میں گرفتار مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دے دیا۔

صوبائی دارالحکومت کی عدالت عالیہ میں جسٹس چوہدری مشتاق احمد نے رانا ثنااللہ کی منشیات برآمدگی کیس میں ضمانت کی درخواست پر محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا۔

عدالت نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے منشیات برآمدگی کیس میں 10، 10 لاکھ روپے کے 2 مچلکے کے عوض رانا ثنااللہ کی درخواست ضمانت منظور کرلی۔

مزید پڑھیں: منشیات برآمدگی کیس: رانا ثنا کی لاہور ہائیکورٹ میں درخواست ضمانت دائر

واضح رہے کہ گزشتہ روز رانا ثنا اللہ کے وکلا اور انسداد منشیات فورس (اے این ایف) کے پراسیکیوٹر نے مذکورہ درخواست پر دلائل دیے تھے، جس کے بعد فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا۔

خیال ریے کہ 20 نومبر کو منشیات برآمدگی کیس میں رانا ثنا اللہ نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا اور اپنی درخواست میں موقف اپنایا گیا تھا کہ حکومت کے خلاف تنقید کرنے پر منشیات اسمگلنگ کا جھوٹا مقدمہ بنایا گیا۔

مذکورہ درخواست میں موقف اپنایا گیا تھا کہ معاملے کی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) تاخیر سے درج کی گئی جو مقدمے کو مشکوک ثابت کرتی ہے جبکہ ایف آئی آر میں 21 کلو گرام ہیروئن اسمگلنگ کا لکھا گیا جبکہ بعد میں اس کا وزن 15 کلو گرام ظاہر کیا گیا۔

ساتھ ہی انہوں نے عدالت سے یہ استدعا کی کہ منشیات اسمگلنگ کیس میں ان کی ضمانت منظور کرکے رہائی کا حکم دیا جائے۔

اس درخواست پر گزشتہ سماعت کے دوران رانا ثنااللہ کے وکیل ایڈووکیٹ ناظم تارڑ نے درخواست ضمانت پر دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ رانا ثنااللہ کے خلاف سیاسی بنیادوں پر جھوٹا کیس بنایا گیا کیونکہ وہ حکومت پر سخت تنقید کرتے رہے ہیں۔

درخواست کو سماعت کے لیے مقرر کرنے سے متعلق سوال اٹھاتے ہوئے ایک پراسیکیوٹر نے کہا تھا کہ نئے موقف کی بنیاد پر دوسری درخواست ضمانت دائر نہیں کی جاسکتی۔

پراسیکیوٹر نے دلائل میں کہا تھا کہ رانا ثنااللہ کا جرم ناقابلِ ضمانت ہے اور انہوں نے ہیروئن کی ریکوری کے علاوہ ایف آئی آر میں شامل تمام واقعات کا اعتراف کیا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ اگر لاہور ہائی کورٹ ہدایت جاری کرے تو ایک ماہ کے اندر ٹرائل مکمل کیا جاسکتا ہے۔

پراسیکیوٹر نے درخواست ضمانت مسترد کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر درخواست گزار ( رانا ثنااللہ) بے قصور پائے گئے تو انہیں ٹرائل میں رہا کردیا جائے گا۔

یہاں یہ بات واضح رہے کہ حالیہ دنوں میں ملک کی دو بڑی اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کی گرفتاری اور ضمانت منظوری کا سلسلہ جاری ہے۔

گزشتہ روز اسلام آباد کی احتساب عدالت نے مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کیس میں سابق وزیرخزانہ مفتاح اسمٰعیل کی درخواست ضمانت منظور کی تھی جبکہ اسی روز مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما احسن اقبال کو نارووال اسپورٹس سٹی منصوبے سے متعلق کیس میں نیب نے گرفتار کرلیا تھا۔

رانا ثنااللہ کے معاملے میں کب کیا ہوا؟

پاکستان مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر اور رکن قومی اسمبلی رانا ثنا اللہ کو انسداد منشیات فورس نے یکم جولائی 2019 کو گرفتار کیا تھا۔

اے این ایف نے مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ کو پنجاب کے علاقے سیکھکی کے نزدیک اسلام آباد-لاہور موٹروے سے گرفتار کیا تھا۔

ترجمان اے این ایف ریاض سومرو نے گرفتاری کے حوالے سے بتایا تھا کہ رانا ثنااللہ کی گاڑی سے منشیات برآمد ہوئیں، جس پر انہیں گرفتار کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ کو اے این ایف نے گرفتار کرلیا

گرفتاری کے بعد رانا ثنا اللہ کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا جہاں انہیں 14 روز کے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجا گیا تھا، جس میں کئی بار توسیع ہو چکی ہے۔

بعد ازاں عدالت نے اے این ایف کی درخواست پر رانا ثنا اللہ کو ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا جبکہ گھر کے کھانے کی استدعا بھی مسترد کردی تھی۔

علاوہ ازیں رانا ثنااللہ نے ضمانت پر رہائی کے لیے لاہور کی انسداد منشیات عدالت میں درخواست دائر کی تھی، جس پر 20 ستمبر کو عدالت نے دیگر 5 ملزمان کی ضمانت منظور کرلی لیکن رانا ثنااللہ کی رہائی کو مسترد کردیا۔

بعد ازاں 6 نومبر کو انہوں نے نئے موقف کے ساتھ انسداد منشیات کی عدالت سے ضمانت کے لیے ایک مرتبہ پھر رجوع کیا تاہم 9 نومبر کو اس درخواست کو بھی مسترد کردیا گیا تھا، جس کے بعد انہوں نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024