• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm

ایل این جی کیس: سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل کو بھی ضمانت مل گئی

شائع December 23, 2019
مفتاح اسمٰعیل سابق وزیر خزانہ تھے —فائل فوٹو: فیس بک
مفتاح اسمٰعیل سابق وزیر خزانہ تھے —فائل فوٹو: فیس بک

اسلام آباد: ملک میں کرپشن اور آمدن سے زائد اثاثوں کے کیسز میں گرفتار اپوزیشن لیڈر کے رہنماؤں کی ضمانت کا سلسلہ جاری ہے اور آج بھی مسلم لیگ (ن) کے دور کے وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل کی درخواست ضمانت منظور ہوگئی۔

وفاقی دارالحکومت کی عدالت عالیہ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن پر مشتمل بینچ نے مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کیس میں گرفتار مفتاح اسمٰعیل کی ضمانت کی درخواست پر سماعت کی۔

سماعت کے دوران مفتاح اسمٰعیل کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ جو الزامات لگائے گئے ہیں ان کے حوالے سے فیصلہ ہوچکا ہے، تینوں دستاویز میں ایک ہی الزام لگایا گیا ہے۔

وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ایک کنسلٹنٹ کو ای سی سی نے تقرر کیا تھا، جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا اس کنسلٹنٹ کا تقرر 'یو ایس ایڈ' نے کیا تھا۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ: مفتاح اسمٰعیل کی درخواست ضمانت پر نیب سے جواب طلب

اس دوران نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ کنسلٹنٹ کا تقرر یو ایس ایڈ نے کیا ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب رقم یو ایس ایڈ نے دی تو پیپرا رولز لاگو ہی نہیں ہوتے۔

دوران سماعت ملزم کے ریمانڈ سے متعلق چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کے پاس ملزم کتنے دن ریمانڈ پر رہا، جس پر نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ 49 دن ملزم ہمارے پاس ریمانڈ پر رہا۔

اسی پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا کوئی ریفرنس بھی فائل کیا گیا ہے، جس پر نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ جی ضمنی ریفرنس 12 دسمبر کو دائر کیا گیا تھا۔

پراسیکیوٹر نیب کی بات پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ اب ملزم جیل میں ہے، آپ کس بنیاد پر مزید انہیں رکھنا چاہتے ہیں، کیا ملزم سے کوئی تفتیش کرنی ہے کیا وہ تعاون نہیں کر رہے۔

سماعت کے دوران جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے پوچھا کہ مفتاح اسمٰعیل کی حراست کے دوران تفتیش میں کیا پیش رفت ہوئی؟ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ حراست کے دوران کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، صرف دستاویزات حاصل کیے گئے۔

نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ بغیر کسی ٹینڈر اور اشتہارات کے خزانے کو نقصان پہنچایا گیا، ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ سیکریٹری پیٹرولیم ایل این جی کیس میں وعدہ معاف گواہ بن گئے ہیں۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ سیکریٹری پرنسپل اکاؤنٹنگ افسر ہوتا ہے، اگر سیکریٹری نہ کرے تو کوئی بھی کام نہیں ہوتا۔

ساتھ ہی انہوں نے پوچھا کہ سیکریٹری نے ایل این جی ٹرمینل کی منظوری کے وقت کہاں لکھا کہ کچھ غلط ہورہا ہے۔

عدالت نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ آپ ملزم کو کیوں جیل میں رکھنا چاہتے ہیں، جس پر نیب نے جواب دیا کہ مفتاح اسمٰعیل کے بیرون ملک فرار ہونے کا خدشہ ہے۔

نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ ایل این جی کیس کے گواہوں کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ کس گواہ کو دھمکی دی گئی؟ کیس میں گواہان کونسے ہیں، اس پر نیب پراسیکیوٹر نے پوچھا کہ زوہیر صدیقی گواہ ہیں۔

اس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ وہ تو خود کئی ریفرنس میں نامزد ہیں، ساری دنیا ان کو جانتی ہے۔

اس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ جرم ثاب ہونے تک ملزم بے گناہ تصور ہوتا ہے جبکہ وائٹ کالر کرائم میں کسی کو گرفتار کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی کیونکہ اس کرائم میں شواہد موجود ہوتے ہیں۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ اگر آپ چاہتے ہیں تو ملزم سے روزانہ تفتیش کے لیے فون کرلیا کرے۔

بعد ازاں عدالت نے ایک کروڑ روپے کے ضمانتی مچلکے کے عوض مفتاح اسمٰعیل کی درخواست ضمانت منظور کرلی۔

ساتھ ہی عدالت نے یہ ریمارکس دیے کہ ہم مفتاح اسمٰعیل کو پابند کرتے ہیں کہ وہ رہائی کے بعد روزانہ تفتیشی افسر کو فون کریں گے۔

ایل این جی کیس

خیال رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی کو 18 جولائی کو قومی احتساب بیورو (نیب) نے مائع قدرتی گیس کیس میں گرفتار کیا تھا، اس کے علاوہ 7 اگست کو ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست مسترد ہونے پر مفتاح اسمٰعیل کو عدالت سے گرفتار کیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں پر الزام ہے کہ انہوں نے اس وقت قوائد کے خلاف ایل این جی ٹرمینل کے لیے 15 سال کا ٹھیکہ دیا، یہ ٹھیکہ اس وقت دیا گیا تھا جب سابق وزیراعظم نواز شریف کے دور حکومت میں شاہد خاقان عباسی وزیر پیٹرولیم تھے۔

نیب کی جانب سے اس کیس کو 2016 میں بند کردیا گیا تھا لیکن بعد ازاں 2018 میں اسے دوبارہ کھولا گیا۔

نیب انکوائری میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ (ایس ایس جی سی ایل) اور انٹر اسٹیٹ گیس سسٹم کی انتظامیہ نے غیر شفاف طریقے سے ایم/ایس اینگرو کو کراچی پورٹ پر ایل این جی ٹرمینل کا کامیاب بولی دہندہ قرار دیا تھا۔

اس کے ساتھ ایس ایس جی سی ایل نے اینگرو کی ایک ذیلی کمپنی کو روزانہ کی مقررہ قیمت پر ایل این جی کی ریگیسفائینگ کے 15 ٹھیکے تفویض کیے تھے۔

خیال رہے کہ اس کیس کے دونوں مرکزی ملزمان شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسمٰعیل 4 ماہ سے زیر حراست تھے تاہم آج مفتاح اسمٰعیل کو ضمانت مل گئی۔

علاوہ ازیں نیب نے احتساب عدالت میں ایل این جی ریفرنس دائر کیا تھا، جس میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل، پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کے سابق منیجنگ ڈائریکٹر شیخ عمران الحق اور آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کے سابق چیئرمین سعید احمد خان سمیت 10 ملزمان کو نامزد کیا گیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024