بھارت میں شہریت قانون کے خلاف مظاہروں میں شدت، 23 افراد ہلاک
بھارت میں شہریت قانون کے خلاف عوامی اجتماع پر پابندی اور متعدد حصوں میں انٹرنیٹ معطلی کے باوجود پرتشدد مظاہروں میں شدت آگئی جبکہ پولیس سے جھڑپوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 23 ہوگئی۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق ریاستی پولیس کے ترجمان پراوین کمار نے بتایا کہ اتر پردیش میں پولیس سے جھڑپوں میں 9 شہری ہلاک ہو گئے۔
مزید پڑھیں: بھارت بھر میں متنازع قانون کے خلاف مظاہرے
انہوں نے بتایا کہ ہلاک ہونے والے زیادہ تر نوجوان تھے۔
پراوین کمار نے بتایا کہ 'متعدد نوجوان فائرنگ سے ہلاک ہوئے لیکن یہ پولیس کی فائرنگ نہیں تھی'۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے مشتعل ہجوم کو خوفزدہ کرنے کے لیے صرف آنسو گیس کا استعمال کیا۔
انہوں نے بتایا کہ 'شمالی شہروں رام پور، سنبھل، مظفر نگر، بجنور اور کان پور میں مظاہرین کے توڑ پھوڑ کے دوران ایک درجن کے قریب گاڑیوں سمیت ایک پولیس اسٹیشن کو نذر آتش کردیا گیا۔
علاوہ ازیں شمال مشرقی سرحدی ریاست آسام میں جہاں 10 دن معطل رہنے کے بعد انٹرنیٹ بحال کیا گیا تھا اور ریاست کے دارالحکومت گوہاٹی میں سیکڑوں خواتین نے شہریت قانون کے خلاف دھرنا دیا۔
یہ بھی پڑھیں: ’بھارت رہنے کے قابل نہیں رہا‘ متنازع شہریت قانون پر ہندو طالبہ کا ردعمل
آل آسام اسٹوڈینٹس یونین کے رہنما سموجل بھٹاچاریہ نے کہا کہ 'ہمارا پرامن احتجاج اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ اس غیر قانونی اور غیر آئینی شہریت کے قانون میں ترمیم کو ختم نہیں کیا جاتا ہے'۔
انہوں نے آسام کے وزیر اعلی سربانند سونووال کی بات چیت کی پیش کش کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بات چیت اس وقت ہوسکتی ہے جب حکومت کچھ سمجھوتہ کرنے کی امید کر رہی ہو۔
واضح رہے کہ دو امریکی صدارتی امیدواروں الزبتھ وارن اور سین برنی سینڈرز ٹوئٹر پر بھارت کے نئے قانون کی مذمت کرچکے ہیں۔
علاوہ ازیں ملائشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد نے کوالالمپور میں اسلامی سربراہی اجلاس کے اختتام کے بعد ایک نیوز کانفرنس میں شہریت کے نئے قانون پر تنقید کی۔
مزیدپڑھیں: بھارت: غیر مسلم تارکین وطن کو شہریت دینے کا بل راجیا سبھا سے بھی منظور
مہاتیر محمد نے کہا کہ بھارت ایک سیکولر ریاست ہے اور لوگوں کو مذہب کی بنیاد پر شہریت حاصل کرنے سے نہیں روکنا چاہیے۔
انہوں نے کہا ' یہ غیر منصفانہ ہے'۔