• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

کوئی ہے جو ہمارے دیہی علاقوں پر بھی توجہ دے؟

شائع January 5, 2020
زبیدہ مصطفیٰ
زبیدہ مصطفیٰ

2017ء کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی تقریباً 63 فیصد آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے۔ ایک ترقی پذیر ملک کے لیے یہ اعداد و شمار وسائل اور ترقیاتی فنڈز کی تقسیم میں برابری کے ساتھ ساتھ تفریق اور پلاننگ کی پیشہ ورانہ مہارت کے تناظر میں متعدد چیلنجز کا باعث بن جاتی ہے۔

اب چونکہ شہری علاقوں میں ترقیاتی کاموں کو انجام دینا اقتصادی طور پر سہل ہے اس لیے زیادہ سے زیادہ توجہ شہری ترقی پر ہی مرکوز کی جاتی ہے۔ انہی علاقوں میں سرکاری عمارتیں ہوتی ہیں اور چونکہ یہاں پر لوگوں کی بہتات کے باعث اقتصادی سرگرمیاں زیادہ ہوتی ہیں اس لیے ترقیاتی منصوبے کے اخراجات بھاری نہیں پڑتے۔

دوسری طرف دیہی علاقوں سے ان فوائد کی توقع نہیں ہوتی، یہی وجہ ہے کہ یہ علاقے اپنی بڑی آبادی کے باوجود مسائل سے دوچار رہتے ہیں۔

مگر دُور دراز کے دیہی علاقوں کو نظر انداز کیے جانے کے عمل کو درست قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ یہ بے دھیانی ملک کے زیادہ تر ملکی باشندوں کی زندگیوں پر بُرے اثرات مرتب کرتی ہے۔

حکومت کے محدود وسائل کو مدِنظر رکھتے ہوئے اس بات کو سمجھنا مشکل نہیں کہ وہ کیوں شہروں کے بجائے ان غیر منافع بخش علاقوں کے لیے زیادہ فنڈز مختص نہیں کرسکتی جہاں آبادی بکھری ہوتی ہے۔ یہی وہ مسئلہ ہے جس کے نتیجے میں ملک میں دیہاتوں سے شہروں کی جانب نقل مکانی (urbanisation) کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے، جو نئے مسائل جنم دے رہا ہے۔

علاوہ ازیں، منصوبہ بندی کے بغیر ہونے والی یہ آبادی کی منتقلی منصوبہ بندی کے عمل کو شدید متاثر کرتی ہے۔

اس بگڑی صورتحال سے دیہی تعلیم کا شعبہ بدترین حد تک متاثر ہوا ہے۔ اس پوری صورتحال کو سمجھنے کے بعد یہ بات زیادہ باعثِ حیرت نہیں کہ دُور دراز کے دیہی علاقوں میں ناخواندگی کی شرح بلند ہے جبکہ اسکول میں داخلے کی شرح پستی کا شکار ہے۔

نقل مکانی اپنی نوعیت میں ایک مشکل کام ہے، کیونکہ بہت سے خاندان ایک جگہ سے دوسری جگہ بار بار منتقل ہو رہے ہوتے ہیں، لہٰذا اس بات کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہمیں ایسے جدید منصوبوں کو تیار کرنا ہوگا جن سے نوجوانوں کی تعلیم پر پڑنے والے منفی اثرات میں کمی لائی جاسکے۔

اس حوالے سے مختلف خیالات پیش کیے جاچکے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب قیصر بنگالی حکومتِ سندھ کے مشیر تھے، ان دنوں میں نے کئی موقعوں پر انہیں یہ مشورہ دیا تھا کہ صوبے کے ان علاقوں میں رہائشی اسکولوں کے قیام کو یقینی بنایا جائے جہاں آبادی بکھری ہوئی ہے۔

قائدِاعظم یونیورسٹی کے پروفیسر واحد بخش بزدار کے پاس بھی اس مسئلے کا ایک حل موجود تھا۔ بلوچستان میں چھوٹے چھوٹے رہائشی علاقوں میں مقیم آبادیوں کو بڑی بڑی آبادیوں میں بدل دیا جائے تاکہ وہاں اسکول اور دیگر سہولیات کی فراہمی میں مشکل پیش نہ آئے۔

میں نے حال ہی میں ایسے 2 منصوبوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا جو کافی کارآمد ثابت ہو رہے ہیں اور اگر انہیں تقویت بخشی گئی تو وہ زبردست مثبت اثرات بھی مرتب کرسکتے ہیں۔

ان میں سے ایک منصوبہ ملیر میں واقع کوہی گوٹھ ہسپتال ہے جسے معروف گائناکولوجسٹ ڈاکٹر شیر شاہ سید نے قائم کیا ہے۔ یہاں مڈوائفو (داعی) اور نرسوں کو تربیت فراہم کی جاتی ہے۔ 50 بستروں پر مشتمل اس جدید ہسپتال میں ان 200 نوجوان خواتین کو رہائش کی سہولت فراہم کی جاتی ہے جنہیں کم و بیش 2 سالہ کورس کے دوران ہسپتال کی حدود میں رہنا ہوتا ہے۔

تربیت کی غرض سے سندھ بھر سے آنے والی نوجوان خواتین (جن کی اس وقت تعداد 160 ہے) کوہی گوٹھ میں ملنے والی رہائش کی سہولت سے بہت خوش ہیں۔ یہ خواتین یہاں اس قدر بہتر تعلیم اور عملی تربیت حاصل کر رہی ہیں، جس کی انہوں نے کبھی اپنے دیہاتوں میں امید بھی نہیں کی ہوگی۔

روزمرہ زندگی کے لیے جن صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے، وہ سب ان خواتین کو سکھائی جارہی ہیں، اور انہیں مزید نکھارا بھی جارہا ہے۔ یعنی انہیں یہ تربیت فراہم کی جاتی ہے کہ مختلف سماجی و لسانی پس منظر سے تعلق رکھنے والے افراد کے ساتھ کس طرح پیش آنا ہے۔ سکھانے والے ان کے اندر اعتماد بحال کرتے ہیں اور یہ سکھاتے ہیں کہ کس طرح وہ اپنی بات کا اظہار بہتر انداز میں کرسکتی ہیں اور اپنے طور پر کمیونٹی لیڈرز بن سکتی ہیں۔

کئی خواتین یہاں تک پہنچنے کے لیے پہلے ہی کئی جنگیں لڑچکی ہوتی ہیں۔ یہ تمام خواتین ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد اپنے دیہاتوں کو بدلنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ Public Private Health Initiative ہر سال 50 خواتین کی ٹریننگ کے اخراجات پورا کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔

مجھے کورنگی اکیڈمی کی صورت میں ایسا ہی ایک دوسرا سماجی تجربہ دیکھنے کو ملا۔ کورنگی اکیڈمی، انفاق فاؤنڈیشن کا قائم کردہ ہائی اسکول ہے۔ قرب و جوار کے بچوں کو تعلیم فراہم کرنے والے اس اسکول نے 2014ء میں اپنا Outreach Programme متعارف کروایا تھا۔

گزشتہ 3 برسوں میں پروگرام کے تحت سندھ کے دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے 40 طلبا کو اسکول میں داخل کیا گیا۔ ان بچوں کو رہائش سمیت پڑھائی کے تمام اخراجات انفاق فاؤنڈیشن برداشت کرتا ہے۔ یہ پروگرام اب بھی جاری ہے لیکن سیلف فنانس کی بنیاد پر۔ یہ امید کی جاتی ہے کہ یہاں تعلیم حاصل کرنے والے بچے اپنے اپنے دیہات لوٹ کر تبدیلی پیدا کریں گے۔

جس حکومت کی یہ اولین ذمہ داری تھی کہ وہ ہمارے بچوں کو تعلیم جیسا بنیادی حق فراہم کرے گی، اس کی جانب سے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے اور وسعت دینے میں ناکامی کے باعث لوگوں کا اس پر سے بھروسہ ہی اٹھ گیا۔

تعلیم کی طلب کو بڑی حد تک نجی شعبہ ہی پورا کر رہا ہے، جن میں غیر منافع بخش اور منافع بخش تعلیمی ادارے دونوں ہی شامل ہیں۔ لیکن نجی شعبہ دیہی علاقوں میں حسبِ توقع دلچسپی نہیں رکھتا۔ تاہم ہمارے ہاں سیٹیزن فاؤنڈیشن اور علی حسن منگی میموریل ٹرسٹ جیسی تنظمیں ضرور موجود ہیں، جو ہیں تو شہری، مگر دیہی علاقوں کی بہتری کے لیے مختلف طریقوں سے کوشش میں مصروف ہیں۔

یہ بھی ضروری ہے کہ انٹرپرینیور اور انسان دوست افراد مل کر دیہی علاقوں میں چھوٹی چھوٹی کاٹیج انڈسٹریز قائم کریں۔ ایسے چھوٹے اور سہل منصوبوں کو قائم کرنے کی کوشش کی جائے جن میں توانائی سے زیادہ تربیت یافتہ افرادی قوت درکار ہو۔

دیگر علاقوں میں فوڈ پروسیسنگ کی صنعت، سیل فون اور کمپیوٹر کی مرمت کے لیے یونٹ اور ہلکی مشینوں کی تیاری کے منصوبوں سے سیکڑوں ہزاروں افراد کو روزگار فراہم کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح بڑے شہروں میں تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوں کے لیے اپنے علاقوں میں ہی روزگار کے مواقع پیدا کیے جاسکیں گے اور انہیں شہروں کا رخ کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔

یوں نئی معاشی سرگرمیاں ہمارے پسماندہ رہ جانے والے دیہی علاقوں میں نئی روح پھونک دیں گی، بس ہمیں تعلیم سے جڑے مسائل پر توجہ دینی ہوگی۔


یہ مضمون 20 دسمبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

زبیدہ مصطفی

www.zubeidamustafa.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024