جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس میں پہلا قدم ہی شبہ پیدا کرتا ہے، وکیل
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی صدارتی ریفرنس کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کے دوران خیبر پختونخوا صوبائی بار کونسل کے وکیل افتخار گیلانی نے کہا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس میں پہلا قدم ہی شبہ پیدا کرتا ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں فل کورٹ کی سماعت ہوئی جہاں خیبر پختونخوا صوبائی بار کونسل، کے پی کے ہائی کورٹ بار کونسل کے وکیل افتخار گیلانی کے دلائل کا آغاز ہوا۔
اپنے دلائل میں افتخار گیلانی نے کہا کہ اس ریفرنس میں پوری وکلا برادری شامل ہے، بینچ اور بار ایک گاڑی کے 2 پہیے ہیں، یہی استدعا پوری وکلا برادری اجتماعی طور پر عدالت سے کررہی ہے۔
افتخار گیلانی نے کہا کہ آرٹیکل 209 صدر کو یہ اختیار نہیں دیتا کہ وہ معاملےکو سپریم جوڈیشل کونسل بھیجنے سے پہلے انکوائری کروائے جس پر جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ کیا صدر نے اپنا ذہن استعمال نہیں کرنا۔
وکیل نے کہا کہ شکایت کنندہ نے اس معاملے میں ایک صفحے کا ثبوت بھی فراہم نہیں کیا،کوئی شخص اس عدالت نے عزت و وقار کے ساتھ نہیں کھیل سکتا ہے۔
مزید پڑھیں: صدر نےبغیر ٹھوس جواز کے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بھیجا، وکیل
انہوں نے کہا کہ 22 کروڑ عوام میں سے 17 لوگ اس عدالت عظمیٰ کے جج ہیں، کیاان کی عزت و وقار پر شک کیے بغیر کسی ثبوت کے بغیر سوال اٹھایا سکتا ہے ؟
افتخار گیلانی نے کہا کہ اگر اس عدالت کی عزت نہ ہو تو معاشرے کی عزت نہیں ہوگی، معاشرے کا وقار اس عدالت کے ساتھ وابستہ ہے۔
وکیل نے کہا کہ یہ مقدمہ برا احساس دلا رہا ہے، اس مقدمے سے عوام کے جج پر اعتماد کو ٹھیس پہنچی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عوام بھی اس ریفرنس اور اس پر ہونے والی پریس کانفرنس پر تعجب میں ہے، اٹارنی جنرل کی جانب سے کی جانے والی پریس کانفرنس میں نے اپنے کیرئیر میں پہلی بار دیکھی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹس کے تین معزز ججز کے فیصلے پر اٹارنی جنرل نے پریس کانفرنس کی۔
افتخار گیلانی نے کہا کہ کیا ریاست کا پرنسپل قانونی افسر ایسی پریس کانفرنس کر سکتا ہے؟کبھی نہیں سنا نہ دیکھا کہ عدالتی فیصلوں پر اٹانی جنرل نے پریس کانفرنس کی ہو۔
وکیل نے کہا کہ ریفرنس پر نہ حکومت اور نہ صدر کے پاس آرٹیکل 209 کے تحت تحقیقات کرانے کا اختیار ہے، صدر صرف سپریم جوڈیشل کونسل کو انکوائری کا کہہ سکتا ہے۔
جس پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ وکلا کے نمائندگان مختلف بار کونسلز کے نمائندگان ایک دوسرے کے خلاف دلائل دے رہے ہیں، حامد خان نے آپ سے مختلف دلائل دیے ہیں۔
اس پر افتخار گیلانی نے کہا کہ میرا کام مقدمہ جیتنا نہیں بلکہ عدالت کے ساتھ مل کر معاملے کو سلجھانا ہے۔
جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ آپ کے مطابق ریفرنس وزیر اعظم سیکریٹریٹ سے آیا، آپ کے مطابق ریفرنس میں وزیر اعظم کی سفارش غیر متعلقہ ہے؟
اس پر سینئر وکیل نے کہا کہ حکومت کو انفارمیشن دینےکا اختیار نہیں جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ یہ تو آپ بہت دلچسپ دلائل دے رہے ہیں۔
افتخار گیلانی نے کہا کہ ریفرنس کہتے ہیں کہ وزیر اعظم کی سفارش پر یہ شکایت سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجی جارہی ہے۔
جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا وجہ ہے کہ انکوائری کرنے کا فنکشن صرف سپریم جوڈیشل کونسل کو ہی دیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: صدر مملکت نے غلط فہمی کے نتیجے میں ریفرنس بھیجا، وکیل جسٹس عیسیٰ
اس پر افتخار گیلانی نے کہا کہ اس میں بنیادی نکتہ یہ ہے کہ جج کی انکوائری صرف ججز ہی کریں، آئین کسی اور شخص کو جج کی انکوائری کا مجاز نہیں بناتا۔
انہوں نے کہا کہ یہ صرف قاضی فائز عیسیٰ کا نہیں پوری سپریم کورٹ کا کیس ہے۔
افتخار گیلانی نے کہا کہ کراچی سے خیبر تک تمام بار کونسل اس مقدمے میں عدالت کے سامنے کھڑے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جسٹس افتخار چوہدری کیس اور اس کیس میں صرف اتنا فرق ہے کہ ملک بھر کے وکلا سڑکوں کی جگہ عدالت میں کھڑے ہیں۔
سینئر وکیل نے کہا کہ 2007 کی ایمرجنسی سے قبل بینچ کو معلوم ہوگیا تھا کہ یہ بلا آنے والی ہے، اللہ ہی اس ملک پر رحم کرے۔
افتخار گیلانی نے کہا کہ جج کی مدت ملازمت کو سپریم کورٹ نے واضح کردیا ہے، یہی عدلیہ کی آزادی ہے۔
انہوں نے کہا کہ قاضی فائز عیسیٰ کے ریفرنس میں پہلا قدم ہی شبہ پیدا کرتا ہے، جج کے خلاف انکوائری صرف سپریم جوڈیشل کونسل کرسکتی ہے نہ کہ صدر پاکستان، اس ریفرنس پر کونسل سے قبل انکوائری کروانا ایک مجرمانہ عمل ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس
واضح رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے آغا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا تھا۔
ریفرنس میں دونوں ججز پر اثاثوں کے حوالے سے مبینہ الزامات عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی گئی تھی۔
سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو پہلا نوٹس برطانیہ میں اہلیہ اور بچوں کے نام پر موجود جائیدادیں ظاہر نہ کرنے کے حوالے سے جاری کیا گیا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاری کیا گیا دوسرا شو کاز نوٹس صدر مملکت عارف علوی کو لکھے گئے خطوط پر لاہور سے تعلق رکھنے والے ایڈووکیٹ وحید شہزاد بٹ کی جانب سے دائر ریفرنس پر جاری کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ ججز کی نگرانی کی تحقیقات کا حکم دے، وکیل جسٹس عیسیٰ
ریفرنس دائر کرنے کی خبر کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کو خطوط لکھے تھے، پہلے خط میں انہوں نے کہا تھا کہ ذرائع ابلاغ میں آنے والی مختلف خبریں ان کی کردارکشی کا باعث بن رہی ہیں، جس سے منصفانہ ٹرائل میں ان کے قانونی حق کو خطرات کا سامنا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت سے یہ درخواست بھی کی تھی کہ اگر ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا جاچکا ہے تو اس کی نقل فراہم کردی جائے کیونکہ مخصوص افواہوں کے باعث متوقع قانونی عمل اور منصفانہ ٹرائل میں ان کا قانونی حق متاثر اور عدلیہ کے ادارے کا تشخص مجروح ہو رہا ہے۔
بعد ازاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے سپریم کورٹ میں ریفرنس کے خلاف درخواست دائر کی گئی تھی جس پر عدالت عظمیٰ کا 10 رکنی بینچ سماعت کررہا ہے۔