• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

صدر نےبغیر ٹھوس جواز کے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بھیجا، وکیل

شائع December 18, 2019 اپ ڈیٹ December 19, 2019
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدارتی ریفرنس چیلنج کردیا تھا— فائل فوٹو / سپریم کورٹ ویب سائٹ
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدارتی ریفرنس چیلنج کردیا تھا— فائل فوٹو / سپریم کورٹ ویب سائٹ

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی صدارتی ریفرنس کے خلاف دائر درخواست پر سپریم جوڈیشل کونسل کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ بار کے وکیل حامد خان نے کہا ہے کہ صدر کے پاس ریفرنس دائر کرنے کا ٹھوس جواز نہیں تھا۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں فل کورٹ کی سماعت ہوئی جہاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کی مخالفت کرتے ہوئے سپریم کورٹ بار کے وکیل حامد خان نے کہا کہ صدر کا کام 209 کے تحت ریفرنس کو آگے بھیجنا نہیں۔

انہوں نے کہا کہ صدر مملکت کو ریفرنس سے متعلق اپنا فیصلہ کرنا چاہیے تھا لیکن صدر مملکت نے ریفرنس بھیجنے سے قبل اس معاملے پر کوئی انکوائری نہیں کروائی۔

حامد خان نے اپنے دلائل میں کہا کہ ماضی میں 58 ٹو بی کا اختیار استعمال کرنے پر صدر کو اپنا موقف دینا ہوتا تھا جس پر فل کورٹ کے سربراہ نے کہا کہ مارشل لا تازہ تازہ ختم ہوا تھا۔

مزید پڑھیں:صدر مملکت نے غلط فہمی کے نتیجے میں ریفرنس بھیجا، وکیل جسٹس عیسیٰ

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اس وقت صدر کے پاس بہت زیادہ اختیارات تھے اس لیے صدر کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت اپنا موقف دینے کا پابند تھا۔

انہوں نے کہا کہ اب صدر کا کام ایڈوائس پر عمل کرنا ہے اور ریفرنس میں صدر نے لکھا ہے کہ ایڈوائس پر ریفرنس بھیج رہے ہیں۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ صدر مملکت کے پاس ریفرنس دائر کرنے کا ٹھوس جواز نہیں تھا حالانکہ صدر کو پہلے ریفرنس کا جواز دینا چاہیے تھا۔

سپریم کورٹ بار کے وکیل کا کہنا تھا کہ عدلیہ کی آزادی آئین کا اہم جز ہے اس لیے صدر مملکت کو ریفرنس دائر کرتے ہوئے عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کسی جج کے خلاف الزام اور ثبوت حاصل کرنے کے عمل کے دوران عدلیہ کی آزادی کا خیال رکھا جاتا ہے اور ریفرنس دائر کرنے کا اختیار عدلیہ کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے وکیل سے سوال کیا کہ ججوں کی جاسوسی کس طریقہ کار کے تحت ہوتی ہے جس پر حامد خان نے کہا کہ موجودہ ریفرنس میں ججوں اور رشتہ داروں کی جاسوسی کا عنصر موجود ہے۔

سپریم کورٹ بار کے وکیل حامد خان نے اپنے دلائل مکمل کیے جس کے بعد سماعت کل تک ملتوی کردی گئی اور اگلی سماعت میں پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل افتخار حسین گیلانی دلائل دیں گے۔

یہ بھی پڑھیں:'جسٹس عیسیٰ کیس میں ریاستی جاسوسی کے ذریعے مواد اکٹھا کیا گیا'

خیال رہے کہ گزشتہ روز دلائل کے دوران حامد خان نے کہا تھا کہ صدرِ مملکت عارف علوی نے غلط فہمی کی بنیاد پر ریفرنس بھیجا حالانکہ وہ وزیراعظم کی سفارش کے پابند تھے۔

حامد خان نے کہا تھا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی الجھن تھی کیونکہ وزیراعظم کی جانب سے معلومات بھیجی گئی تھیں جس پر صدر کو ایک رائے قائم کرنی تھی۔

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ صدرِ مملکت کو آزادانہ طور پر خود کو مطمئن کرنا تھا کیونکہ جب معاملہ وزیر اعظم یا کابینہ کی جانب سے ارسال کیا گیا تو وہ صرف معلومات تھیں جن کو واضح کرنے کی ضرورت تھی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس

واضح رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے آغا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا تھا۔

ریفرنس میں دونوں ججز پر اثاثوں کے حوالے سے مبینہ الزامات عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی گئی تھی۔

سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاری کیا گیا پہلا نوٹس برطانیہ میں اہلیہ اور بچوں کے نام پر موجود جائیدادیں ظاہر نہ کرنے کے حوالے سے صدارتی ریفرنس جاری کیا گیا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاری کیا گیا دوسرا شو کاز نوٹس صدر مملکت عارف علوی کو لکھے گئے خطوط پر لاہور سے تعلق رکھنے والے ایڈووکیٹ وحید شہزاد بٹ کی جانب سے دائر ریفرنس پر جاری کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ ججز کی نگرانی کی تحقیقات کا حکم دے، وکیل جسٹس عیسیٰ

ریفرنس دائر کرنے کی خبر کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کو خطوط لکھے تھے، پہلے خط میں انہوں نے کہا تھا کہ ذرائع ابلاغ میں آنے والی مختلف خبریں ان کی کردارکشی کا باعث بن رہی ہیں، جس سے منصفانہ ٹرائل میں ان کے قانونی حق کو خطرات کا سامنا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت سے یہ درخواست بھی کی تھی کہ اگر ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا جاچکا ہے تو اس کی نقل فراہم کردی جائے کیونکہ مخصوص افواہوں کے باعث متوقع قانونی عمل اور منصفانہ ٹرائل میں ان کا قانونی حق متاثر اور عدلیہ کے ادارے کا تشخص مجروح ہو رہا ہے۔

بعد ازاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے سپریم کورٹ میں ریفرنس کے خلاف درخواست دائر کی گئی تھی جس پر عدالت عظمیٰ کا 10 رکنی بینچ سماعت کررہا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024