• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm

پی آئی سی واقعہ: معاملے کے حل کیلئے 8 رکنی کمیٹی قائم

شائع December 18, 2019
عدالت عالیہ کے 2 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی—فائل فوٹو:لاہور ہائی کورٹ ویب سائٹ
عدالت عالیہ کے 2 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی—فائل فوٹو:لاہور ہائی کورٹ ویب سائٹ

لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی (پی آئی سی) واقعے پر معاملے کو حل کرنے کے لیے 8 رکنی کمیٹی قائم کرتے ہوئے معاملہ حل کرنے کی ہدایت کردی۔

عدالت عظمیٰ کی جانب سے قائم کی گئی کمیٹی میں 4 وکلا کےنمائندگان اور 4 ڈاکٹرز کے نمائندے شامل ہوں گے۔

صوبائی دارالحکومت لاہور کی عدالت عالیہ میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس سردار احمد نعیم پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے پی آئی سی واقعے کے بعد گرفتار وکلا کی رہائی کی درخواستوں پر سماعت کی، اس دوران وکلا کی جانب سے احسن بھون پیش ہوئے جبکہ عدالت میں انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب پولیس شعیب دستگیر بھی موجود تھے۔

سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل پنجاب بھی عدالت کے روبرو پیش ہوئے، اس موقع پر وکلا کے وکیل احسن بھون نے بتایا کہ لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے پی آئی سی واقعے کی مذمت کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ وکلا کو منہ پر کالا کپڑا ڈال کر انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کیا گیا جبکہ پولیس نے تھانوں میں وکلا پر تشدد کیا، اس کے علاوہ وکلا کے گھروں پر چھاپے مار کر انہیں گرفتار کیا جارہا ہے۔

مزید پڑھیں: وکلا کی ملک گیر ہڑتال، لاہور ہسپتال حملے میں گرفتار افراد کی رہائی کا مطالبہ

علاوہ ازیں احسن بھون نے پی آئی سی واقعے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ وکلا ایک گھنٹے سے زائد وقت میں پیدل پی آئی سی گئے، پنجاب حکومت یا سیکیورٹی اداروں نے انہیں کیوں نہ روکا، وکلا کو ریس کورس پارک سے گرفتار کرکے ڈاکٹرز کے حوالے کیا گیا جہاں انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ جس نے یہ گناہ کیا ہے اسے سزا ملے گی لیکن جس نے نہیں کیا اسے سزا بھگتنے نہیں دیں گے۔

گرفتار وکلا کے وکیل کی بات پر عدالت میں موجود آئی جی پنجاب نے بتایا کہ پولیس نے نہ کسی برادری کو ٹارگٹ کیا اور نہ ہی تشدد کیا ہے۔

اس پر عدالت نے کہا کہ وکلا کے چہرے ڈھانپ کر عدالت میں پیش کرنے کی کیا ضرورت تھی، ہم نے خود دیکھا ہے کہ وکلا کے چہرے کالے کپڑے سے ڈھانپے ہوئے تھے، کالا کپڑا ڈال کر منہ تب چھپاتے ہیں جب کسی کو پھانسی دینی ہو۔

ہسپتال پر حملے سے متعلق عدالت عالیہ نے ریمارکس دیے کہ ویانا کنونشن میں بھی ہے کہ جنگ میں ہسپتالوں پر حملہ نہیں کرتے، تاہم عدالت نے کہا کہ سینئر وکلا نے معاملے کے بعد وہاں جاکر معافی مانگی تاہم سامنے سے کو بہتر ردعمل نہیں آیا۔

دوران سماعت آئی جی پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ کچھ لوگ نرسنگ ہاسٹل کی طرف جاتے ہوئے پکڑے گئے، جس پر عدالت نے پوچھا کہ آپ کے پاس کیا ثبوت ہیں کہ لوگ نرسنگ ہاسٹل کی طرف گئے۔

ساتھ ہی یہ بھی پوچھا کہ وکلا جب پی آئی سی جا رہے تھے تو آپ نے کیوں نہیں روکا، اس پر آئی جی پنجاب نے جواب دیا کہ ہم نے روکا تھا لیکن تب تک وکلا پرامن تھے۔

یہ بھی پڑھیں: غیر پیشہ ورانہ رویہ، توہین کرنے پر اسلام آباد ہائیکورٹ بار کے سیکریٹری کو نوٹس

آئی جی کے جواب پر عدالت نے پوچھا کہ آپ نے کس کس پوائنٹ پر وکلا کو روکنے کی کوشش کی، جس پر انہیں جواب دیا کہ پولیس نے چائنہ چوک سمیت دیگر مقامات پر روکا لیکن وکلا تب تک پرامن تھے۔

اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ دل کے مریض کے سامنے کسی کو ہلہ گلہ کرنے کی اجازت دینا بڑی عجیب بات ہے، ساتھ ہی عدالت نے آئی جی سے استفسار کیا کہ آپ کو معلوم تھا کہ وکلا پی آئی سی جا رہے ہیں تو آپ نے وہاں حفاظتی انتظامات کیوں نہ کیے، جس پر شعیب دستگیر نے جواب دیا کہ ہمیں بالکل اندازہ نہیں تھا کہ وکلا ایسا انتہائی قدم اٹھائیں گے۔

سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ وکلا نے جب پی آئی سی کے اندر جانے کی کوشش کی تب آنسو گیس کا استعمال کیا گیا، جس پر عدالت نے کہا کہ یہ آنسو گیس آپ پہلے ہی کسی اور جگہ استعمال کر لیتے تو اچھا نہیں تھا۔

اس موقع پر عدالت نے پوچھا کہ اس واقعے میں مجموعی طور پر کتنے افراد جان کی بازی ہار گئے ہیں، جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے انہیں بتایا کہ 3 لوگ اس افسوسناک واقعے میں وفات پاگئے ہیں، وفات پانے والوں کے اہل خانہ کو 10 لاکھ فی کس دیے گئے ہیں۔

سماعت کے دوران درخواست گزار وکلا کے وکیل احسن بھون نے کہا کہ گورنر ہاؤس سے ایک انچ بھی آگے کسی کو نہیں جانا چاہیے تھا، ہم ڈاکٹرز کا احترام کرتے ہیں اور اس معاملے کا حل چاہتے ہیں۔

تاہم اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ جنہوں نے یہ سارا معاملہ کیا ہے وہ بھگتیں گے، جو لوگ ملوث ہیں ان کے لیے کوئی رعایت نہیں لیکن جو ملوث نہیں انہیں پریشان نہ کریں۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ پولیس سب وکلا سے ایک ہی طرح کا برتاؤ نہ کرے، ہم نے آج ڈاکٹرز کے سربراہان کو بھی چیمبر میں بلایا ہے۔

عدالت نے آئی جی پنجاب اور سیکریٹری داخلہ کو چیمبر میں بلا لیا اور کہا کہ ہم ڈاکٹرز سے چیمبرز میں بات کرلیتے ہیں، ساتھ ہی یہ بھی ہدایت کی کہ میڈیا وہ رپورٹ کرے جو کمرہ عدالت میں ہورہا ہے۔

بعد ازاں عدالت نے 8 رکنی کمیٹی قائم کرتےہوئے کہا کہ وکلا کہ منہ پر کپڑا ڈال کر نہ پیش کیا جائے، جس پر آئی جی اور ایڈووکیٹ جنرل نے یقین دہانی کروائی کہ گرفتار وکلا کے ساتھ قانون کے مطابق برتاؤ کیا جائے گا۔

ساتھ ہی عدالت نے مذکورہ درخواستوں کو نمٹا دیا۔

پی آئی سی تنازع پر تصفیے کیلئے 8 رکنی کمیٹی تشکیل

قبل ازیں لاہور ہائی کورٹ بار کے صدر حفیظ الرحمٰن چوہدری نے بتایا تھا کہ پی آئی سی تنازع پر تصفیے کے لیے وکلا اور ڈاکٹرز کی 8 رکنی کمیٹی تشکیل دے دی گئی۔

مزید پڑھیں: لاہور: وکلا کا امراض قلب کے ہسپتال پر دھاوا، 3 مریض جاں بحق

انہوں نے بتایا تھا کہ یہ کمیٹی تنازع پر مذاکرات کرکے معاملہ حل کرے گی، کمیٹی میں وکلا اور ڈاکٹرز کی جانب سے 4، 4 نمائندے شامل ہوں گے۔

صدر لاہور ہائی کورٹ بار کا کہنا تھا کہ کمیٹی مذاکرات کر کے سفارشات عدالت میں پیش کرے گی، عدالت کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں کیس کا فیصلہ کرے گی۔

پی آئی سی واقعہ

خیال رہے کہ 11 دسمبر کو لاہور میں پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی (پی آئی سی) میں مبینہ طور پر وکلا نے ہنگامہ آرائی کر کے ہسپتال کے اندر اور باہر توڑ پھوڑ کی تھی جس کے باعث طبی امداد نہ ملنے سے 3 مریض جاں بحق اور متعدد افراد زخمی ہوگئے تھے جبکہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب نے واقعے کا نوٹس لے لیا تھا۔

جس کے بعد پی آئی سی پر حملے کے بعد پولیس نے 81 وکلا کو گرفتار کرلیا تھا، لاہور میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 46 وکلا کو جوڈیشل ریمانڈ پر بھیج دیا تھا جبکہ پولیس کی جانب سے پی آئی سی پر حملے کے الزامات کی تحقیقات کے لیے ان کے جسمانی ریمانڈ سے متعلق پولیس کی درخواست مسترد کردی تھی۔

شادمان پولیس نے 200 سے 250 وکلا کے خلاف 2 ایف آئی آرز درج کی تھیں جن میں انسداد دہشت گردی کی دفعہ نمبر 7 شامل ہے۔

یہاں یہ بھی یاد رہے کہ پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر مبینہ حملے میں ملوث ہونے پر گرفتار وکلا پر مقدمات درج ہونے کے خلاف لیگل باڈیز کی کال پر ملک بھر میں وکلا نے احتجاج کیا تھا اور مطالبہ کیا تھا کہ گرفتار کیے گئے وکلا کو ’فوری رہا‘ کیا جائے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024