• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm

6 ماہ میں قانون سازی نہ ہوسکی تو آرمی چیف ریٹائرڈ تصور ہوں گے، تفصیلی فیصلہ

شائع December 16, 2019 اپ ڈیٹ December 17, 2019
سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں چیف جسٹس نے کہا کہ قانون بالاتر ہے—فوٹو: عدالت عظمیٰ ویب سائٹ
سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں چیف جسٹس نے کہا کہ قانون بالاتر ہے—فوٹو: عدالت عظمیٰ ویب سائٹ

سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرمی چیف کی مدت میں توسیع کے حوالے سے اپنا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا جس میں کہا ہے کہ اگر حکومت 6 ماہ کی مدت میں اس معاملے پر پارلیمنٹ سے قانون سازی میں ناکام ہوئی تو موجودہ آرمی چیف ریٹائر تصور ہوں گے۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کا 43 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کردیا، جسے جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا ہے اور چیف جسٹس پاکستان کا اضافی نوٹ بھی شامل ہے۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت میں توسیع کے حوالے سے مختصر فیصلہ 28 نومبر کو سنایا تھا جس میں اٹارنی جنرل کی استدعا پر حکومت کو 6 ماہ تک آرمی چیف کی مدت سے متعلق قانون سازی کرنے کا حکم دیا تھا۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو مکمل طور پر یہ یقین دلایا تھا کہ فوج کی روایت کو قانون کے تحت تحفظ دیا جائے گا اور وفاقی حکومت کی جانب سے یہ یقین دہانی کروائی کہ فوج میں قائم روایات کو قانون کے تحت لانے کے لیے 6 ماہ میں ضروری قانون سازی کی جائے گی، اس 6 ماہ کے عرصے میں چیف آف آرمی اسٹاف فوج انتظامی نظم و ضبط، تربیت اور کمانڈ کے ذمہ دار ہوں گے۔

سپریم کورٹ نے تفصیلی فیصلے میں استفسار کیا ہے کہ ہماری حکومت قانون کی ہے یا افراد کی، ہمارے سامنے مقدمہ تھا کہ کیا آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی جاسکتی ہے، کیس کا بنیادی سوال قانون کی بالادستی کا تھا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ دوران سماعت اٹارنی جنرل نے اعتراف کیا کہ آرٹیکل 243 کے تحت ریٹائرڈ جنرل بھی آرمی چیف ہوسکتا ہے، اٹارنی جنرل کے اعتراف کے بعد آرمی چیف کے عہدے سے متعلق بہت سے اہم سوالات اٹھتے ہیں۔

فیصلے کے مطابق اب معاملہ پاکستان کے منتخب نمائندوں کے پاس ہے اور ادارے مضبوط ہوں گے تو قوم ترقی کرے گی۔

یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفکیشن معطل کردیا

عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آرمی چیف کی تقرری، ریٹائرمنٹ اور توسیع کی تاریخ موجود ہے، پہلی بار یہ معاملہ عدالت عظمیٰ کے سامنے آیا جبکہ پہلی سماعت میں درخواست گزار عدالت میں پیش نہیں ہوئے لیکن درخواست واپس لینے کے لیے تحریری استدعا کی جس کو عدالت نے رد کیا جبکہ اگلے روز وہ پیش ہوئے اور زبانی درخواست کی تو انہیں عدالت کا حکم سنا دیا گیا۔

سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ عوامی دلچسپی کے معاملات پر دی گئی درخواست سے دستبرداری عدالت کی اجازت سے ہوتی ہے۔

قانونی خلا اور وفاقی حکومت کی یقین دہانی

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ آرمی سے متعلق قوانین کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ جنرل اور آرمی چیف کی مدت اور ریٹائرمنٹ کی عمر کے ساتھ ساتھ مدت میں توسیع یا ازسر نو تعیناتی کے حوالے سے کوئی شق موجود نہیں ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وزارت دفاع کی جانب سے آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی، توسیع اور از سرنو تعیناتی کے لیے جاری کی گئی سمری جس کی منظوری صدر، وزیراعظم اور کابینہ نے دی، بے معنی ہے اور قانونی خلا پر کوئی اثر نہیں پڑا۔

عدالت عظمیٰ نے کہا ہے کہ اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کروائی ہے کہ وفاقی حکومت حاضر سروس جنرل اور آرمی چیف کی سروس کے حوالے سے 6 ماہ کے اندر ایک ایکٹ کی شکل میں پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی کرے گی

عدالتی صوابدیدی اختیار

سپریم کورٹ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ 6 ماہ تک مشروط توسیع دینے کے لیے عدالت کے فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالتی صوابدیدی اختیار (جوڈیشل ریسٹرینٹ) ٹھوس رجحان کے طور پر ججوں کو اس وقت مجبور کرتا ہے جب آئینی حدود کی واضح طور پر خلاف ورزی کی گئی ہو۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جوڈیشل ریویو کے اختیارات ججوں کے ہاتھوں میں ایک بڑا ہتھیار ہے لیکن ججوں کو ہمارے پارلیمانی نظام کی جانب سے اس اختیار کے استعمال کے لیے دی گئیں حدود پر ہی مظاہرہ کرنا چاہیے جو پارلیمان، انتظامیہ اور عدالتوں کے اختیارات کو واضح کرتا ہے۔

عدالت نے کہا کہ جوڈیشل ریویو جوڈیشل ہی رہنا چاہیے اور اس حوالے سے جج کو ضرور خیال رکھنا چاہیے کہ وہ حکومت کی دیگر شاخوں میں دخل نہ دیں، جوڈیشل ریسٹریٹ قانون کی بالادستی اور عوامی اعتماد کے لیے اہم ہے۔

سپریم کورٹ نے واضح کرتے ہوئے کہا ہے کہ اختیارات کی تقسیم آئینی جمہوریت کا ایک بنیادی حصہ ہے اور ہم مقننہ کی حدود میں مداخلت کرنے کی خواہش نہیں کرتے اسی لیے عدالت نے کئی مقدمات میں عدالتی صوابدیدی اختیارات کا استعمال کیا اور متنازع معاملات پر حتمی فیصلے سے قبل حکومت کو آئینی خلا پر کرنے کے لیے شفاف موقع فراہم کیا۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہم عدالتی صوابدیدی اختیارات کا استعمال کررہے ہیں اور 6 ماہ کے دوران پارلیمنٹ سے ایکٹ کی شکل میں قانون سازی کے لیے اٹارنی جنرل کی یقین دہانی پر وفاقی حکومت کو ایک موقع دیا گیا ہے۔

'قانون سازی میں ناکامی پر صدر نیا آرمی چیف تعینات کریں گے'

سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت کے حوالے سے مقررہ مدت میں قانون سازی میں ناکامی کی صورت میں اگلا قدم کیا ہوگا اس پر بھی وضاحت کردی ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چیف آف آرمی اسٹاف کو کمانڈ، نظم، تربیت، انتظام، تنظیم، فوج کو جنگی تیاری اور جنرل ہیڈکوارٹرز کے چیف ایگزیکٹیو کے طور پر ذمہ دار تصور کرتے ہوئے ہم جوڈیشل ریسٹرینٹ کا مظاہر کررہے ہیں اور آرمی چیف کی مدت کے حوالے سے قانون سازی کے معاملے کو پارلیمان اور وفاقی حکومت پر چھوڑنا مناسب ہے۔

پارلیمنٹ اور حکومت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ایک ایکٹ کے ذریعے آرٹیکل 243 کی وسعت کی وضاحت کریں۔

سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی بحیثیت آرمی چیف حالیہ تعیناتی مذکورہ قانون سازی سے مشروط ہے اور 6 ماہ تک عہدے کو جاری رکھ سکتے ہیں اور نئی قانون سازی ان کی مدت اور سروس کے حوالے سے دیگر شرائط کی وضاحت کرے گی۔

عدالت عظمیٰ نے تفصیلی فیصلے میں کہا ہے کہ اگر وفاقی حکومت پارلیمنٹ سے جنرل یا آرمی چیف کی مدت اور دیگر شرائط پر قانون سازی اٹارنی جنرل کی یقین دہانی کے باوجود 6 ماہ کے اندر نہیں کرپائی تو آرمی چیف کے عہدے کو مکمل طور بے ضابطہ اور ہمیشہ کے ایسا نہیں چھوڑا جاسکتا اور یہ آئینی طور پر نامناسب بات ہوگی۔

سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ اٹارنی جنرل کی وعدے کے مطابق قانون سازی کے لیے وفاقی حکومت کی ناکامی کی صورت میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت تین سال میں مکمل ہوگی جو 29 نومبر 2016 کو شروع ہوئی تھی۔

عدالت عظمیٰ نے واضح کیا کہ پارلیمنٹ سے 6 ماہ کے اندر اس حوالے سے قانون سازی میں ناکامی کی صورت میں صدر مملکت وزیراعظم کی تجویز پر حاضر سروس جنرل کو نیا چیف آف آرمی اسٹاف تعینات کریں گے۔

جسٹس منصور علی شاہ کی جانب سے تحریر کردہ اس فیصلے سے بینچ کے دیگر اراکین جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل اور چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اتفاق کیا تاہم چیف جسٹس نے اضافی نوٹ بھی لکھا۔

چیف جسٹس کا اضافی نوٹ، 'قانون بالا تر ہے'

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے اضافی نوٹ میں کہا کہ میں اپنے برادر جج سید منصور علی شاہ کے فیصلے سے اتفاق کرتا ہوں اور اس میں اضافہ کرنا چاہتا ہوں کہ مخصوص تاریخ کے تناظر میں آرمی چیف کاعہدہ کسی بھی عہدے سے زیادہ طاقت ور ہے، ‏آرمی چیف کا عہدہ لامحدود اختیار اور حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔

اضافی نوٹ میں چیف جسٹس نے کہا کہ ‏بے ضابطہ صوابدید اختیار یا عہدہ خطرناک ہوتا ہے اوریہ انکشاف ہمارے لیے تعجب کا باعث تھا کہ آرمی چیف کےعہدے میں توسیع، دوبارہ تقرری کی شرائط و ضوابط کا کسی قانون میں ذکر نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے اپنے اضافی نوٹ میں کہا کہ آئین کے تحت مسلح افواج سے متعلق صدر کے اختیارات قانون سے مشروط ہیں۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ ہماری قوم کی جمہوری پختگی اس حد کو پہنچ چکی ہے جہاں یہ عدالت کہہ سکتی ہے جیسا کہ انگلینڈ کے چیف جسٹس سر ایڈورڈ کوک نے 1616 میں بادشاہ جیمز کے اختیارات کے حوالے سے کہا تھا کہ ‘آپ بالا تر ہوسکتے ہیں، قانون آپ سے بالاتر ہے’۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024