کیا بھارتی عدالت ’تعویذ‘ اور ’آیت‘ کا ہندی ترجمہ کروا سکتی ہے؟
اردو زبان ہندوستان میں پیدا ہوئی، وہیں پلی بڑھی۔ دہلی، لکھنؤ اس کے بڑے دبستان سمجھے جاتے تھے۔ لیکن اب یہیں اس کو ’ستی‘ کیا جارہا ہے۔
گزشتہ دنوں دہلی کی عدالت نے پولیس ایف آئی آر میں اردو کے الفاظ کو مشکل قرار دے کر انہیں نکالنے کا حکم دیا ہے اور پولیس کی سرزنش بھی کی ہے۔
کبھی اردو زبان پورے ہندوستان میں رابطے کی زبان سمجھی جاتی تھی، تاہم ہندوؤں نے اسے صرف مسلمانوں کی زبان قرار دیا۔ چنانچہ اس کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک ہورہا ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ عدالت نے اس لفظ کا متبادل نہیں بتایا اور عدالت کو عدالت ہی کہا ہے۔ یہ لفظ عدل سے ہے اور عربی کا ہے جو اردو میں عام ہے اور پورے ہندوستان میں سمجھا بھی جاتا ہے۔ عدالت نے اپنے حکم میں انگریزی کے الفاظ ایف آئی آر (فرسٹ انفارمیشن رپورٹ) پر تو کوئی اعتراض نہیں کیا، جبکہ یہ الفاظ ایک عام ہندوستانی کے لیے نامانوس ہیں۔
عدالت نے تعزیراتِ ہند کا حوالہ دیا ہے، جبکہ تعزیرات بھی عربی سے اردو میں آیا ہے۔ ’دہلی پولیس کی سرزنش‘۔ اس میں ’پولیس‘ کا لفظ انگریزی اور ’سرزنش‘ فارسی کا ہے جس کا مطلب ایک عام آدمی کو معلوم نہیں۔
حکم نامے میں یہ ہے کہ ایف آئی آر اہم دستاویز ہوتی ہے، اسے سہل زبان میں لکھنے کی ضرورت ہے، چنانچہ اردو، فارسی کے ایسے مشکل الفاظ کا استعمال بند کردے۔ اب اس میں ’دستاویز، سہل، حکم، ضرورت، زبان، مشکل‘ وغیرہ جیسے الفاظ بھی حکم نامے میں درج نہیں ہونے چاہئیں۔
دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ڈی این پٹیل اور جسٹس ہری شنکر کو چاہیے کہ ہائی کورٹ، چیف جسٹس، جسٹس جیسے انگریزی الفاظ کو بھی خارج کیا جائے اور ان کا ہندی متبادل لایا جائے۔ ’شدہ ہندی‘ تو انگریزی الفاظ سے بھی پاک ہونی چاہیے۔ دوسری طرف اردو کو دارالحکومت دہلی میں دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔ سنسکرت آمیز ہندی کے بارے میں بھارت کے پہلے وزیرِاعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے کہا تھا کہ اب جو زبان بولی جارہی ہے وہ ان کی سمجھ میں بھی نہیں آتی۔
مزے کی بات یہ ہے کہ پنڈت جی کے نام میں ’جواہر‘ اور ’لعل‘ دونوں الفاظ عربی کے ہیں۔ ان کے والد موتی لعل تھے۔ کچھ اخبارات میں جواہر لعل کو جواہر لال لکھا جاتا ہے۔ چلیے لعل کو ’لال‘ کردیا لیکن جواہر کا بھی کچھ کریں۔ عدالت پنڈت جی کا نام بھی بدلے۔
عدالت کے حکم پر دہلی پولیس نے اردو کے 383 الفاظ پر مشتمل فہرست پیش کی کہ ان کا استعمال اب ترک کردیا گیا ہے۔ یہ فہرست طویل ہے لیکن ان الفاظ کا ہندی یا سنسکرت میں متبادل بھی پیش کرنا چاہیے تھا۔
فہرست میں ایک لفظ ’مسمّی‘ بھی ہے جس کا تلفظ خود اردو بولنے والے بھی غلط کرتے ہیں۔ پاکستان کی عدالتوں میں عام طور پر یہ آواز لگتی ہے ’مسمی فلاں حاضر ہوں‘۔ جبکہ اس کا تلفظ ’مسما‘ ہے، مسمیٰ پر کھڑا زبر ہے جیسے عیسیٰ، موسیٰ۔
عدالت کے حکم پر پولیس ٹریننگ کالج اور اسٹاف کا متبادل تلاش کیا جارہا ہے لیکن فی الوقت انگریزی الفاظ سے مکتی حاصل کرنے کا ارادہ نظر نہیں آتا، کیونکہ یہ پورے برِعظیم کے سابق آقاؤں کی زبان ہے، وہ بُرا مان جائیں گے۔ ایران میں زبان سے انگریزی الفاظ کو نکالنے کی مہم چلی تھی، لیکن زیادہ کامیاب نہیں ہوئی، البتہ کئی الفاظ کو ’مفرّس‘ کرلیا گیا۔
اہلِ ہند علامہ اقبال کو اپنا شاعر قرار دیتے ہیں کیونکہ وہ ہندوستان ہی میں پیدا ہوئے اور انتقال بھی ہندوستان میں ہوا، کیونکہ اس وقت تک پاکستان نہیں بنا تھا۔ وہاں علامہ اقبال پر علمی کام بھی بہت ہوا، ممکن ہے ان کی شاعری میں سے اردو کے الفاظ نکالنے کی مہم ابھی نہیں تو شاید جلد ہی شروع ہوجائے۔ علامہ کی اردو شاعری میں تو عربی اور فارسی کے الفاظ کی کثرت ہے۔ علامہ اقبال ہی نے کہا تھا
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی، یہ گلستاں ہمارا
علامہ کے اس گلستان سے اردو کو نکالا جارہا ہے۔ علامہ کے ذکر پر یاد آیا کہ بھارتی جمہوریہ کے صدر ڈاکٹر راجندر پرشاد نے اقبال سے موسوم ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اقبال بہت اچھے شاعر تھے لیکن افسوس وہ پاکستان چلے گئے‘۔ واضح رہے کہ راجندر پرشاد پی ایچ ڈی تھے۔
دہلی عدالت کے حکم نامے کی مخالفت کرتے ہوئے اردو کے فروغ کے لیے سرگرم تنظیم ’اردو ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن‘ کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر معید احمد خان نے کہا کہ اردو بھارت میں رابطے کی سب سے بڑی اور اہم زبان ہے۔ صحیح ہے، لیکن اردو کے فروغ کے لیے سرگرم مذکورہ تنظیم کم از کم اپنا نام ہی اردو میں رکھ لیتی۔ مثلاً ’تنظیم فروغِ اردو‘۔ افسوس کی بات ہے کہ اردو کے فروغ کے لیے کام کرنے والی تنظیم نے اپنے نام کے لیے انگریزی کو ترجیح دی، اور پھر کہا جائے کہ اردو دنیا کی پیاری اور عام فہم زبان ہے تو کیا آپ کو پیاری نہیں! بہت بڑے مزاحیہ شاعر دلاور فگار نے طنز کیا تھا
’آئی ایم دی ہیڈ آف دی اردو ڈیپارٹمنٹ‘۔
ایک زمانے میں کراچی میں یہ نعرہ لگتا رہا ہے ’وی وانٹ اردو‘۔
دہلی کی عدالت نے تو اردو کے الفاظ نکالنے کا حکم دیا ہے، اب پاکستان کی عدالتوں کو چاہیے کہ وہ ملک کی قومی زبان سے بدسلوکی کرنے والوں کے خلاف حکم جاری کریں۔ بھارت کی تو چھوڑیے، پاکستان میں اردو کے ساتھ کون سا اچھا سلوک ہورہا ہے! پروفیسر غازی علم الدین سے علم و ادب کی دنیا خوب شناسا ہے۔ وہ اپنی کتاب ’تخلیقی زاویے‘‘میں اردو کی زبوں حالی کے حوالے سے لکھتے ہیں ’ہندوستان میں گنگا جمنی تہذیب کی آئینہ دار اردو زبان کی زبوں حالی پر میں ایسے موقع پر خامہ فرسائی کررہا ہوں کہ خود پاکستان میں قومی زبان کا وجود خطرے میں ہے اور اس کے دشمن بزعمِ خویش اس کی تجہیز و تکفین کی تیاریوں میں سرگرم ہیں۔ اردو کے حق میں پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ کے 8 ستمبر 2015ء کے تاریخ ساز فیصلے کے بعد بدقسمتی سے نام نہاد دانشوروں اور اشرافیہ نے باہم مل کر اردو کے خلاف طبلِ جنگ بجا دیا ہے۔ اب تو ایوانوں میں کھلے عام بے چاری اردو کے خلاف مشورے ہونے لگے ہیں۔ حالاںکہ بانیِ پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناح نے 21 مارچ 1948ء کو قوم سے خطاب میں واضح طور پر فرمایا تھا کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہوگی، کوئی دوسری نہیں۔ آئینِ پاکستان بھی اسے قومی زبان کا درجہ دیتا ہے، مگر اس بے چاری کے حالات پاکستان میں کبھی اچھے نہیں رہے‘۔
یہ ایک ایسے دردمند اور اردو کے عاشق کی تحریر ہے جو معروف معنوں میں ’اہلِ زبان‘ نہیں۔ ہم ایک بار پھر واضح کردیں کہ ہمارے خیال میں اہلِ زبان وہ ہے جو زبان کا صحیح استعمال کرے، خواہ وہ کوئی سی زبان ہو۔
انگریزی سمیت ہر زبان میں ماہرینِ لسانیات ہوتے ہیں جو زبان کی تہذیب اور درستی کے لیے مسلسل کام کرتے ہیں۔ اردو کے بارے میں کوئی ایسی کوشش کرے تو کہا جاتا ہے کہ ’بات تو سمجھ آگئی ناں‘۔ لیکن بات تو ایک ناخواندہ شخص، ایک کسان اور مزدور کی بھی سمجھ میں آجاتی ہے۔
اس کے بعد جناب غازی علم الدین بھارت میں اردو کی صورت حال کے موضوع پر آتے ہیں لیکن ’ہم کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ لیں‘۔ غازی صاحب نے عظیم اختر کے مضامین اپنی کتاب میں شامل کیے ہیں جو دہلی کی زبان، اس کی تہذیب، تاریخ اور ادب کا چلتا پھرتا دائرۃ المعارف ہیں۔
اردو اور دہلی ان کی 2 کمزوریاں ہیں۔ ہندوستان میں اردو کے حوالے سے ان کے کئی مضامین شامل کیے گئے ہیں، مگر ہمیں تو شکوہ اپنے طبقۂ اشرافیہ، ذرائع ابلاغ اور دانشوروں سے ہے کہ جن کے چنگل میں پھنس کر اردو کا حال یہ ہے کہ
قیدِ قفس میں طاقتِ پرواز اب کہاں
رعشہ سا کچھ ضرور ابھی بال و پر میں ہے
لیکن جب تک درد مندانِ اردو موجود ہیں اور یہ بڑی تعداد میں ہیں, اردو کی طاقتِ پرواز نہ صرف برقرار رہے گی بلکہ اس میں اضافہ بھی ہوگا۔ اب سندھ کے وزیر جناب ناصر حسین شاہ مبنی (مب۔نی) پر تشدد کرکے اسے مبّنی کہتے رہیں، یا جسارت کے ایک بزرگ کالم نگار اپنے شریر خامہ کے ذریعے ’باقاعدہ‘ کو ’باقائدہ‘ لکھتے رہیں۔
’سوا‘ اور ’علاوہ‘ میں ذرائع ابلاغ فرق کرنے پر تیار نہیں۔ 3 دسمبر کو ایک ٹی وی چینل نے خبروں میں ’فلاں کے علاوہ دیگر 4 افراد کے پروڈکشن آرڈر جاری ہوگئے‘ کہا۔ 4 دسمبر کے ایک اخبار میں بھی یہی سرخی تھی۔ یہاں علاوہ کا مطلب ہے کہ ’فلاں صاحب‘ بھی ان میں شامل ہیں جن کے پروڈکشن آرڈرز جاری ہوئے۔ جبکہ یہاں ’سوا‘ ہونا چاہیے تھا۔
اب بھارت کا کیا ذکر کریں، لیکن بھارتی فلموں میں ہندی کے نام سے اردو کے جو گانے مقبول ہیں، عدالت ان پر کیا کارروائی کرے گی؟ مثلاً بڑا مشور گانا ہے ’تعویذ بنا کر پہنوں تجھے، آیت کی طرح مل جائے کہیں‘۔ تعویذ اور آیت کا ہندی ترجمہ کریں اور پھر مقبولیت دیکھ لیں۔
یہ مضمون ابتدائی طور پر فرائیڈے اسپیشل میں شائع ہوا اور با اجازت یہاں شائع کیا گیا ہے۔
تبصرے (2) بند ہیں