وفاقی وزیر کا آرمی چیف کے معاملے میں عدالتی فیصلے پر نظرثانی درخواست دائر کرنے کا عندیہ
اسلام آباد: آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے مذکورہ معاملے پر پارلیمنٹ میں قانون سازی کی بجائے عدالت میں نظرثانی درخواست دائر کرنے کا عندیہ دے دیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وفاقی وزیر برائے سائنس اور ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے ڈان سے خصوصی انٹرویو کے دوران یہ عندیہ دیا۔
واضح رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے کہا تھا کہ 20 دسمبر کو ان کی ریٹائرمنٹ سے قبل ہی تفصیلی فیصلہ جاری کیا جائے گا۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: آرمی چیف کی مدت ملازمت میں 6 ماہ کی مشروط توسیع
واضح رہے کہ 28 نومبر کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس میں سماعت کے بعد مختصر فیصلہ سناتے ہوئے ان کی مدت ملازمت میں 6 ماہ کی مشروط توسیع دے دی تھی۔
مختصر فیصلے میں کہا گیا تھا کہ 'اس دوران پارلیمنٹ آرمی چیف کی توسیع / دوبارہ تقرر کے بارے میں قانون سازی کرے گی'۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس مظہر عالم پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے جیورسٹ فاؤنڈیشن کے وکیل ریاض حنیف راہی کی جانب سے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف درخواست پر سماعت کی تھی۔
فیصلے میں کہا گیا تھا کہ حکومت آرٹیکل 243 (4) (بی) اور آرمی ریگولیشن کے رول 255 پر انحصار کرتی رہی جبکہ عدالت نے آرمی چیف کی تعیناتی، مدت اور توسیع سے متعلق سوالات کیے۔
اس ضمن میں وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا کہ 'ایک آپشن (حکومت کے سامنے) نظرثانی کی درخواست دائر کرنا ہے'۔
یہ بھی پڑھیں: ’ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع ڈیڑھ ماہ میں آئینی حیثیت حاصل کرلے گی‘
انہوں نے کہا کہ 'وہ ذاتی طور پر اس کے حق میں ہیں'۔
حکومت آرمی چیف کی مدت ملازمت سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق قانون سازی کو متعارف کروائے گی سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ 'ذاتی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ قانون سازی کرنے کے بجائے یہ کیس سپریم کورٹ میں واپس جانا چاہیے'۔
علاوہ ازیں ان کی رائے تھی کہ اگر معاملہ پارلیمنٹ میں قانون سازی کے لیے پیش کیا جائے گا تو آسانی سے حل ہوجائے گا کیونکہ اپوزیشن جماعتوں سمیت تمام جماعتیں اس کی حمایت کریں گی۔
وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے مطابق تمام سیاسی جماعتوں کا خیال ہے کہ موجودہ مخصوص حالات میں آرمی چیف کی مدت ملازمت کی توسیع ضروری ہے۔
فواد چوہدری، جو خود پیشے کے اعبتار سے وکیل ہیں، نے کہا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت سے متعلق کیس میں فیصلہ سنانے والے تینوں ججز مضبوط عدالتی پس منظر والے 'عظیم جج' ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: 'آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع دینا وزیراعظم کا حق ہے'
تاہم انہوں نے کہا کہ 'ان کی رائے میں فیصلے میں کچھ 'قانونی کمزوریاں’ تھیں جنہیں درست کرنے کی ضرورت ہے۔
فواد چوہدری نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے کے ذریعے آئین کے آرٹیکل 243 کو 'تقریباً' ختم کردیا۔
اپنے موقف کے حق میں انہوں نے استدلال پیش کیا کہ 'عدالت پارلیمنٹ کو یہ نہیں بتا سکتی کہ اسے کیا قانون سازی کرنی چاہیے اور کیا نہیں'۔
آئین کے آرٹیکل 243 (4) کے مطابق 'وزیراعظم کے مشورے پر صدر (اے) چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی (بی) چیف آف آرمی اسٹاف (سی) چیف آف دی نیول اسٹاف اور (ڈی) چیف آف ایئر اسٹاف اور ان کی تنخواہوں اور الاؤنس کا بھی تعین کرسکتے ہیں۔
فواد چوہدری نے کہا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت کا ذکر 1956 اور 1962 کے دستور میں ہوا تھا۔
تاہم انہوں نے کہا ایک مکمل بحث و مباحثے کے بعد پارلیمنٹ نے 1973 کے آئین کی منظوری کے دوران آرمی چیف کی مدت ملازمت کو ختم کردیا تھا۔
مزیدپڑھیں: آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع معطل،عدالتی کارروائی کی تفصیلات
ان کا خیال تھا کہ اس دفعہ کو ختم کرنے کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ پارلیمنٹ وزیر اعظم کو ان کی خواہش کے مطابق آرمی چیف کے تقرر یا ان کے خاتمے کے لیے بااختیار بنانا چاہتی تھی۔
فواد چوہدری نے مزید کہا 'اگر اس اصطلاح کا کوئی تذکرہ ہوگا تو ضرورت پڑنے پر وزیر اعظم وقت سے پہلے کسی آرمی چیف کو کیسے ختم کردیں گے'۔
اس سے قبل چیف جسٹس نے سیمینار میں شرکت کے بعد کچھ نامہ نگاروں سے غیر رسمی گفتگو کے دوران کہا تھا کہ ان کی ریٹائرمنٹ سے قبل آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا جائے گا۔
حدود بندی پر تبادلہ خیال
وفاقی وزیر فواد چوہدری نے 'حکومت، مسلح افواج، اپوزیشن اور عدلیہ' کے درمیان بات چیت کرنے کی ضرورت پر زور دیا کہ تمام ادارے اپنی 'حدود' کے بارے میں ایک مرتبہ فیصلہ کرلیں۔
انہوں نے کہا کہ 'اگر یہ چاروں ادارے آپس میں لڑتے رہے تو ہم افراتفری کا شکار ہوجائیں گے'۔
فواد چوہدری نے کہا کہ 'اب وقت آگیا ہے کہ تمام ادارے ایک ساتھ بیٹھ کر اپنی حدود کے بارے میں بات کریں کیونکہ 'اقتدار کی ہوس' ملک کے ساتھ پارلیمنٹ کو بھی کمزور کررہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'بدقسمتی سے پارلیمنٹ، جو سب سے طاقتور اور اعلی ترین ادارہ ہونا چاہیے، وہ ملک کا سب سے کمزور ادارہ بن رہا ہے'۔
سینیٹ کے سابق چیئرمین رضا ربانی نے بھی ریاستی اداروں میں قومی مکالمہ شروع کرنے کا مطالبہ کیا تھا اس سے متعلق سوال پر وفاقی وزیر نے کہا کہ رضا ربانی نے اختیارات کے 'عزم' کی بات کی تھی جبکہ میں 'حدود' کے بارے میں بات کررہا ہوں۔
تفصیلی فیصلہ دیکھے بغیر سقم کیسے نظر آیا، رہنما مسلم لیگ (ن)
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے فواد چوہدری کے بیانات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ 'موجودہ حکومت ایک مزاحیہ تھیٹر ہے'۔
احسن اقبال نے کہا کہ فواد چوہدری کو اس طرح کے تبصرے کرنے سے پہلے عدالت کے تفصیلی فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے تھا۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ 'وفاقی وزیر تفصیلی فیصلہ دیکھے بغیر یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ عدالتی فیصلے میں کچھ سقم موجود ہیں'۔
ایسا لگتا ہے کہ فواد چوہدری کچھ اور بات کررہے ہیں، پی پی پی سینیٹر
علاوہ ازیں جب پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ اپنی تازہ ترین کتاب میں انہوں نے 1973 کے آئین کے مطابق تینوں ریاستی اداروں کے اختیارات کے بارے میں بات کی ہے، جیسا کہ آئین میں دیا گیا ہے اور اس کا تعلق ایگزیکٹو، عدلیہ اور پارلیمنٹ سے ہے۔
رضا ربانی نے کہا کہ 'ایسا لگتا ہے کہ فواد چوہدری کچھ اور بات کر رہے ہیں'۔
پی پی پی کے سینیٹر نے کہا کہ آئین اور کاروباری قوانین کے تحت مسلح افواج وزارت دفاع سے منسلک شعبہ ہے لہذا یہ ایگزیکٹو کے زمرے میں آتا ہے۔