• KHI: Fajr 5:24am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 4:59am Sunrise 6:22am
  • ISB: Fajr 5:06am Sunrise 6:31am
  • KHI: Fajr 5:24am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 4:59am Sunrise 6:22am
  • ISB: Fajr 5:06am Sunrise 6:31am

بھائی، اتنے لوگ تو امارات کے میدان میں بھی آجاتے تھے!

شائع December 11, 2019 اپ ڈیٹ December 15, 2019
نہ کوئی جشن، نہ روایت سے ہٹ کر تقریب۔ میں اس بات پر اب بھی قائل ہوں کہ سری لنکن ٹیم کو گارڈ آف آنر دیا جانا چاہیے تھا—فوٹو: ٹوئٹر
نہ کوئی جشن، نہ روایت سے ہٹ کر تقریب۔ میں اس بات پر اب بھی قائل ہوں کہ سری لنکن ٹیم کو گارڈ آف آنر دیا جانا چاہیے تھا—فوٹو: ٹوئٹر

2009ء میں سری لنکن ٹیم کے ساتھ لاہور میں کیا کچھ ہوا، یہ بات تو اب سب کو معلوم ہے، اس لیے اس افسوسناک سانحے پر بات کرنے کے بجائے آج میں ان خوش کن لمحات کا ذکر کروں گا، جنہیں ہم نے اپنے ہاتھوں سے مایوس کن بنادیا۔

پہلی بات تو ہم سب کو یہ سمجھ لینی چاہیے کہ یہ 10 سال بعد پاکستان میں صرف کرکٹ بحال نہیں ہوئی، بلکہ پاکستان پر دنیا کے اعتماد کی بحالی کا بھی آغاز ہوا ہے۔ دنیا کو یہ پیغام گیا ہے کہ پاکستان اب بدل رہا ہے، یہاں امن ہے، سکون ہے، تحفظ ہے۔

یہ صاف اور واضح پیغام پاکستان کو تمام ہی شعبوں میں بے پناہ فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ یہاں سرمایہ کاری بھی آسکتی ہے، غیر ملکی ایک بار پھر یہاں کا رخ کرسکتے ہیں اور پیچھے جاتا پاکستان آگے نکل سکتا ہے۔

اس بنیادی بات کو سمجھنے کے بعد میں اس مؤقف کو اختیار کرنا چاہتا ہوں کہ 11 دسمبر 2019ء کا دن ہر ہر اعتبار سے ہمارے لیے بڑا اور اہم دن تھا، بلکہ ہے۔

وہ کہتے ہیں نا کہ اپنا ڈھول خود پیٹنا ہوتا ہے، تو بس آج کے حوالے سے ہمیں یہی کام کرنا تھا، لیکن معذرت کے ساتھ یہ کہنا چاہوں کہ اس پورے معاملے میں ہم وزیرِاعلی پنجاب عثمان بزدار کی راہ پر چل پڑے، یعنی یہاں آنے والی غیر ملکی ٹیم کا اتنی خاموشی سے استقبال کیا کہ کسی کو خبر تک نہیں ہوئی۔

چاروں فاسٹ باؤلرز ایکشن میں—فوٹو بشکریہ: پاکستان کرکٹ بورڈ ٹوئٹر پیج

مجھے تو شاید اتنا نہیں یاد، لیکن یقین ہے آپ کو یاد ہوگا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) پاکستان میں کرکٹ کی واپسی کی جو سب سے مضبوط اور زوردار دلیل دیا کرتا تھا وہ یہ تھی کہ یہاں لوگ کرکٹ کو پسند کرتے ہیں، کرکٹ پاکستانیوں کے خون میں دوڑتی ہے، امارات میں تو خالی میدان منہ چڑاتے ہیں، لیکن جب بھی کرکٹ پاکستان میں واپس آئی تو یہاں کے بھرے میدان اس بات کو ثابت کردیں گے کہ ہم یعنی پاکستانی قوم اس کھیل سے کتنی محبت کرتی ہے۔

پھر کیا ہوا؟

پھر ہوا یہ کہ 10 سال کے طویل عرصے بعد جب پی سی بی کی محنت رنگ لے آئی تو ہم نے خالی میدان میں ٹیسٹ کرکٹ کا استقبال کیا۔ نہ کوئی غیر معمولی جشن، نہ کوئی روایت سے ہٹ کر تقریب۔ سچ پوچھیے تو میں اس بات پر اب بھی قائل ہوں کہ سری لنکن ٹیم کو گارڈ آف آنر دیا جانا چاہیے تھا۔

عام اصول کو لاگو کیا جائے تو پاکستان میں غیر ملکی کرکٹ بحال ہونے کے لیے اگر کسی ٹیم کو سب سے آخر میں آنا چاہیے تھا تو وہ سری لنکن ٹیم تھی کیونکہ اصل متاثر تو وہی ہوئی تھی، لیکن ان کا کمال دیکھیے کہ وہی ٹیم سب سے پہلے ٹیسٹ کرکٹ کی بحالی کی وجہ بنی۔

لیکن پھر ہم نے جو کیا اس عمل نے مجھے اتنا مایوس کیا کہ میں صبح سے ہی سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر خالی میدان اور انتہائی مایوس کن تشہیر کا رونا رو رہا ہوں۔ میرے اس مؤقف پر کچھ دوستوں نے اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا۔

جیسے ہمارے ایک دوست نے کہا کہ ’موسم کی خرابی کی وجہ سے لوگ نہیں آسکے ہوں گے، لیکن ممکن ہے لنچ تک بہتری آجائے‘۔ اگرچہ ان کی بات ٹھیک تھی، مگر میں نے ان کو یہ جواب دیا کہ ’میری رائے یہ ہے کہ ہمیں بہت غیر معمولی آغاز کی ضرورت تھی، دنیا کو یہ بتانے کی ضرورت تھی کہ ہم اس دن کے لیے کتنے بے تاب ہیں‘، اور اچھی بات یہ ہوئی کہ انہوں نے میرے اس خیال سے اتفاق کیا۔

ٹاس کا منظر—فوٹو بشکریہ: پاکستان کرکٹ بورڈ ٹوئٹر پیج
ٹاس کا منظر—فوٹو بشکریہ: پاکستان کرکٹ بورڈ ٹوئٹر پیج

کچھ دوستوں نے اچھی جانب توجہ دلائی کہ اگر میچ کا آغاز ہفتہ یا اتوار کو ہوتا تو میدان میں تماشائی آج کے مقابلے میں زیادہ ہوتے۔ یہ بات بالکل ٹھیک ہے۔ کیونکہ ہمارے پاس ویسے بھی تفریح کے لیے کچھ خاص نہیں ہے، ایسے حالات میں لوگ ضرور چھٹی والے دن میدان کا رخ کریں گے، لیکن بات پھر وہی ہے کہ جو بات ہم عام لوگ سوچ اور سمجھ سکتے ہیں وہ ہمارا بورڈ کیوں نہیں سمجھ سکا؟ اس نے کیوں کوئی تیاری نہیں کی؟

دیکھیے ہم میں سے یہ بات کون نہیں جانتا کہ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کو پاکستان میں ملنے والی کامیابی کا پیمانہ کیا ہے؟ ظاہر ہے یہی بھرے ہوئے میدان ہیں۔ اگر کل کو پی ایس ایل کے میچ بھی اس طرح عدم توجہی کا شکار ہوگئے تو پھر ہم کس طرح یہ ثابت کریں گے کہ یہ لیگ کامیاب ترین لیگوں میں سے ایک ہے؟

ہونا کیا چاہیے تھا؟

یہ بہت اہم سوال ہے۔ دیکھیے بہت سارے کام کیے جاسکتے ہیں۔ جیسے

عالمی برادری کی توجہ حاصل کی جاتی

اس واپسی کو عالمی سطح کا ایونٹ بنایا جاسکتا تھا، پھر چاہے اس کام کے لیے ایونٹ منیجمنٹ کرنے والے لوگوں کو اپنے ساتھ ملا لیا جاتا۔ اگر آپ زیادہ پیچھے نہیں، بس کل شام تک اپنی یادداشت کو لے کر جائیں تو آپ کو ٹھیک طرح سے اندازہ ہوجائے گا کہ نہ ہمارے ٹی وی چینل اس حوالے سے زیادہ بات کررہے تھے، نہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر کوئی ماحول نظر آرہا تھا، نہ شہروں میں کوئی ایسے رونق تھی جس کی بنیاد پر لوگوں میں دلچسپی پیدا ہوتی۔ یہ وہ سارے کام تھے جو ہمیں کرنے چاہیے تھے بلکہ ہم اب بھی کرسکتے تھے، تاکہ اپنے میدانوں اور امارات کے میدان میں کوئی فرق واضح کرسکیں۔

خصوصی حکمت عملی کی ضرورت تھی

اس بات کا اندیشہ تو شروع سے ہی تھا کہ مصروف زندگی میں ٹیسٹ کرکٹ کو دیکھنے شاید لوگ اتنی بڑی تعداد میں نہ آئیں، لیکن ہم کم از کم پہلے دن کے لیے تو کوئی حکمت عملی بنا سکتے تھے۔ پی سی بی مقامی اسکولوں، یونیورسٹیوں اور دیگر اداروں کو اعتماد میں لے سکتا تھا۔ یہ طے پایا جاسکتا تھا کہ آج کے دن کوئی ایسی حکمت عملی تیار کرلی جائے پہلا دن ہاؤس فل ہوجائے۔

جب آج کے دن کی تصاویر بھرے ہوئے میدان کے ساتھ دنیا بھر میں وائرل ہوتیں تو سب یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے کہ یہاں کے لوگ واقعی اس کھیل کو بہت اہمیت دیتے ہیں، اس سے محبت کرتے ہیں۔

ہمیں یہ بات بھی اب یاد رکھنی چاہیے کہ پاکستان میں شاید اب کرکٹ ہی ایسا کھیل رہ گیا ہے جس کا کوئی مستقبل کسی حد تک نظر آتا ہے، اگر اس میں ہونے والی اتنی بڑی تبدیلی کو بھی ہم 2 کالم کی خبر جتنی اہمیت دیں گے تو پھر دنیا بھی کبھی اس کو ہیڈلائن جتنی اہمیت نہیں دے گی۔

فہیم پٹیل

فہیم پٹیل سینئر صحافی ہیں، آپ کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

آپ کا ٹوئٹر اکاؤنٹ یہ ہے: patelfahim@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (8) بند ہیں

Nasr Dec 11, 2019 08:21pm
بہت عمدہ تحریر ہے اور ارباب اختیار کو کچھ سوچنا چاہیے
Nisar attari Dec 11, 2019 09:24pm
Fahim sahb ye mashwara match starte hone chand din pehlay detay to shayed soort hall defrent hoti
محمد Dec 11, 2019 11:11pm
اگر زحمت نہ ہو تو گراؤنڈ سے نکل کر، ایک دو کلومیٹر کا علاقہ گھوم کے دیکھ لیں، بہت کچھ سمجھ میں آئے گا، نہیں تو BBC کا مضمون، "میچ میدان میں، شور سڑکوں پہ" پڑھ لیں, جس ذہنی اذیت کا شکار عام عوام ہو رہی ہے، اس کے بعد سوال صرف اتنا ہے کہ کھیل تو ذہنی تفریح کا سامان ہوتے ہیں، ہم عوام کی زندگی کیوں اجیرن کر رہے ہیں۔ بہتر ہوتا کہ انٹرنیشنل کرکٹ کو لاہور یا کراچی تک محدود رکھا جاتا لوگوں کے گھروں اور روزگار کے داخلی اور خارجی راستے نہ بند کرتے۔ پنڈی کی یہ جگہ مرکزی ہوائنٹ ہے۔
SYED HASAN Dec 12, 2019 07:32am
Halat yeh hai ke Management ki janib se announce kiya gaya that ke Match ke tamam Ticket faroakht ho chukay hein. Kya loag ticket kharid kar bhi nahin aaye....Wajah?
shoaib Dec 12, 2019 09:57am
Intehai aala tajziya kiya hai. Humain har lihaaz se tayyari karni chahye thi.
Rizwan Dec 12, 2019 10:40am
ٹیسٹ میچ کے ٹکٹس فری نہی ہے؟ میرے خیال سے سیکورٹی سب سے بڑا مسئلہ ہے، بے جا سیکورٹی سے عوام تکلیف میں ہے۔
عمران Dec 12, 2019 12:19pm
ہم بنیادی طور پر ایک تماشبین قوم، ہمیں کرکٹ سے کیا کسی بھی کھیل سے کوئی دلچسپی نہیں۔ T20 بھی ہلہ گلہ کی وجہ سے دیکھتے ہیں۔ یہ آسٹریلیا یا انگلینڈ نہیں کہ ٹیسٹ میچ میں ہاوس فل ہو جائے۔ ایکسٹرا سیکورٹی بھی ایک وجہ ہے۔ لیکن ٹیسٹ میں تو 2004-2005 بھی تماشائیوں کی یہی صوتحال تھی۔ میں نے لاہور میں انگلینڈ کے خلاف میچ دیکھا اس میں بھی چھٹی والے دن تماشائیوں کی اتنی ہی تعداد تھی۔
fahad Dec 16, 2019 02:27pm
جب تک مصبا ح اور وقار ٹیم کے ساتھ رہیں گےٹیم اسی طرح سے برباد رہے گی اگر ٹیم کو صحیح کر با ہے تو ان دونوں کو ہٹا نا پڑہے گاھکھکھکککککککککککککککک

کارٹون

کارٹون : 4 نومبر 2024
کارٹون : 3 نومبر 2024