اسلام آباد ہائیکورٹ نواز شریف کی سزا کےخلاف اپیل پر فیصلے میں آزاد ہے، سپریم کورٹ
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ العزیزیہ اسٹیل ملز بدعنوانی ریفرنس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیل کا فیصلہ کرنے میں پوری طرح آزاد ہوگی۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق عدالت عظمیٰ کی جانب سے جاری تین صفحات پر مشتمل حکم نامے میں کہا گیا کہ 'ہم ان پہلوؤں پر مزید کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہیں گے کیونکہ ہائیکورٹ اپنے دائرہ اختیار اور صوابدید میں خود مختار ہےاور حقائق کی بنیاد پر فیصلہ کرے گی۔
عدالت عظمیٰ کے ذریعہ جاری کردہ تین صفحات پر مشتمل ایک حکم نامے میں کہا گیا کہ اس کے نتیجے میں یہ نتیجہ برآمد ہوا۔
مزیدپڑھیں: جج ویڈیو لیک کیس: ملزم کا جج ارشد ملک کی ویڈیو بنانے کا اعتراف
قبل ازیں سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کے متنازع ویڈیو کیس واضح کیا 'کہ مذکورہ کیس میں ان کی آبزرویشن ہائیکورٹ کی سماعت پر اثرانداز نہیں ہوگی'۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے آبزرویشن میں کہا تھا کہ احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو اصلی ہوئی تو مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کو فائدہ پہنچے گا۔
عدالت نے مذکورہ ریمارکس سابق وزیراعظم کی 23 اگست کے فیصلے میں عدالت عظمیٰ کے آبزرویشن کے خلاف نظرثانی درخواست کی سماعت کے دوران دیے۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس سید منصور شاہ پر مشتمل 3رکنی بینچ نے نواز شریف کی جانب سے دائر نظرثانی درخواست پر سماعت کی اور اسے دلائل مکمل ہونے پر نمٹا دیا۔
نظرثانی درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ (دیکھ بھال کی کمی کے سبب) تھا کیونکہ اسے بغیر کسی دائرہ اختیار کے منظور کیا گیا تھا اور اس وجہ سے اس پر نظرثانی کی جاسکتی ہے۔
نظرثانی درخواست کی کارروائی کے دوران عدالت نے کہا کہ ان کی آبزرویشن ہائی کورٹ میں ہونے والی سماعت پر اثر انداز نہیں ہوگی۔
چیف آصف سعید کھوسہ نے ریماکس دیے کہ ہائی کورٹ اپنا فیصلہ کرنے میں خود مختار ہے، ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ 'وہ پہلے بھی یہ لکھ چکے ہیں اور دوبارہ بھی ایسا کردیں گے'۔
یہ بھی پڑھیں: جج ارشد ملک ویڈیو کیس انسداد دہشت گردی عدالت منتقل
دوران سماعت چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ اپنے فیصلے میں ہم نے کوئی حکم نہیں دیا لیکن فیصلے میں بہت سی چیزیں تفتیش طلب ہونے کا لکھا، ویڈیو کے بارے میں قانون کی بات کی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہائیکورٹ کے ہاتھ باندھنے کے تبصرے شروع ہوگئے یہ بات تب ہوتی ہے جب فیصلہ پڑھے بغیر تبصرے شروع ہو جاتے ہیں۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ فریقین کو نوٹس اس لیے نہیں دیئے کہ درخواستیں منظور نہیں ہوئیں۔
سماعت کے دوران وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت کے سامنے کسی مقصد کے لیے آیا ہوں، جس پر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ نظرثانی میں جو باتیں کیں وہ عدالت پہلے مان چکی ہے، کسی کے نقصان کا امکان ہے تو پھر اپوزیشن کو کلیئر کردیتے ہیں۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ ویڈیو اسکینڈل پر اپنا فیصلہ کرنے میں مکمل آزاد ہے اور وہ اپنا راستہ خود تلاش کرے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ججز کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں کرتے، جو فیصلہ بھی ہوگا میرٹ پر ہوگا، ججز کسی کے ساتھ نا انصافی نہیں ہونے دیں گے۔
اس موقع پر عدالت نے نوازشریف کی آبزرویشن سے متعلق استدعا منظور کرتے ہوئے نظرثانی اپیل نمٹا دی، علاوہ ازیں درخواست گزاروں اشتیاق مرزا، سہیل اختر اور طارق اسد کی درخواستیں خارج کردیں۔
واضح رہے کہ 23 اگست کو عدالت عظمیٰ نے احتساب عدالت کے اس وقت کے جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو لیک اسکینڈل پر درخواستوں کو نمٹاتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ ارشد ملک کی ویڈیو کلپ صرف اس صورت میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو فائدہ پہنچائے گی جب اسے اسلام آباد ہائیکورٹ کے سامنے مناسب طریقے سے پیش کیا جائے گا۔
عدالتی حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ ویڈیو کلپ اور اس کی ٹرانسکرپٹ کبھی بھی قانونی طریقے کار سے پیش نہیں کی گئی۔
جج ویڈیو اسکینڈل
مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز نے لاہور میں میڈیا کے سامنے ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو پیش کی تھی۔
6 جولائی 2019 کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز پریس کانفرنس کے دوران العزیزیہ اسٹیل ملز کیس کا فیصلہ سنانے والے جج ارشد ملک کی مبینہ خفیہ ویڈیو سامنے لائی تھیں۔
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر نے جو ویڈیو چلائی تھی اس میں مبینہ طور پر جج ارشد ملک، مسلم لیگ (ن) کے کارکن ناصر بٹ سے ملاقات کے دوران نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنس سے متعلق گفتگو کر رہے تھے۔
مزید پڑھیں: جج ویڈیو اسکینڈل: ناصر بٹ کے بھتیجے، قریبی عزیز کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور
مریم نواز نے بتایا تھا کہ ویڈیو میں نظر آنے والے جج نے فیصلے سے متعلق ناصر بٹ کو بتایا کہ 'نواز شریف کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، فیصلے کے بعد سے میرا ضمیر ملامت کرتا رہا اور رات کو ڈراؤنے خواب آتے، لہٰذا نواز شریف تک یہ بات پہنچائی جائے کہ ان کے کیس میں جھول ہوا ہے‘۔
تاہم ویڈیو سامنے آنے کے بعد احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے خود پر لگنے والے الزامات کا جواب دیا تھا اور ایک پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے ویڈیو کو مفروضوں پر مبنی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس ویڈیو سے میری اور میرے خاندان کی ساکھ کو متاثر کرنے کی کوشش کی گئی۔
اس تمام معاملے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق نے 2 مرتبہ جج ارشد ملک سے ملاقات کی تھی جبکہ اس تمام معاملے سے متعلق چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان آصف سعید کھوسہ کو بھی آگاہ کیا تھا۔
مزیدپڑھیں: جج ویڈیو اسکینڈل میں شریک ملزم لاپتہ، پولیس نے مقدمہ درج کرلیا
بعد ازاں 12 جولائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا تھا اور خط لکھا تھا، جس پر وزارت قانون نے احتساب عدالت نمبر 2 کے ان جج کو مزید کام کرنے سے روک دیا تھا اور لا ڈویژن کو رپورٹ کرنے کا کہا تھا۔
اسی روز جج ارشد ملک کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک خط اور بیان حلفی جمع کروایا گیا تھا، جس میں ویڈیو میں لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا گیا تھا۔
جج ارشد ملک نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے نمائندوں کی جانب سے انہیں العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز میں نواز شریف کے حق میں فیصلہ دینے پر مجبور کرنے کے لیے رشوت کی پیشکش اور سنگین نتائج کی دھمکی دی گئی اور بعد ازاں عہدے سے استعفیٰ دینے پر بھی مجبور کیا گیا۔
بعدازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے 22 اگست کو فیصلہ سناتے ہوئے احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کو تادیبی کارروائی کے لیے واپس لاہور ہائی کورٹ بھیجنے کے احکامات جاری کیے تھے۔
جس کے بعد 23 اگست کو سپریم کورٹ میں دائر درخواست پر محفوظ فیصلہ سنایا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے اور ایف آئی اے پہلے ہی ویڈیو کی تحقیقات کر رہا ہے اس لیے سپریم کورٹ فی الحال مداخلت نہیں کر رہی۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ
23 اگست کو سپریم کورٹ میں دائر درخواست پر محفوظ فیصلہ سنایا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے اور ایف آئی اے پہلے ہی ویڈیو کی تحقیقات کر رہا ہے اس لیے سپریم کورٹ فی الحال مداخلت نہیں کر رہی۔
سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کو دیکھنا ہوگا کہ ویڈیو کا جج کے فیصلوں پر کیا اثر پڑا، ہائی کورٹ کے پاس اختیار ہے کہ وہ احتساب عدالت کے جج کی جانب سے دیئے گئے فیصلے میں شہادتوں کا جائزہ لے کر اس سزا کو ختم کردے، وہ دستیاب شہادتوں کو سامنے رکھ کر بھی کوئی فیصلہ دے سکتی ہے، ہائی کورٹ چاہے تو فیصلے کو دوبارہ ٹرائل کورٹ بھی بھیج سکتی ہے اور ٹرائل کورٹ فریقین کو سن کر کیس سے متعلق فیصلہ کر سکتی ہے۔