مریم نواز کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے معاملے پر حکومت کو 7 روز میں فیصلے کا حکم
لاہور ہائی کورٹ نے حکومت کی نظرثانی کمیٹی کو 7 روز میں مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کی نظرثانی درخواست پر قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کا حکم دے دیا۔
صوبائی دارالحکومت کی عدالت عالیہ میں جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے مریم نواز کی درخواست پر سماعت کی۔
اس موقع پر مریم نواز کے وکلا امجد پرویز اور اعظم نذیر تارڑ پیش ہوئے جبکہ وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق اے خان پیش ہوئے۔
سماعت کے دوران مریم نواز کے وکیل نے کہا کہ ان کی موکلہ پر کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز کا الزام لگا کر نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا۔
مزید پڑھیں: چوہدری شوگر ملز کیس: مریم نواز کی درخواست پر نیب سے جواب طلب
انہوں نے کہا کہ مریم نواز کا موقف سنے بغیر ان کا نام ای سی ایل میں شامل کرکے وفاقی حکومت نے ایگزٹ کنٹرول لسٹ آرڈیننس کی خلاف ورزی کی ہے۔
اس پر جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ آرڈیننس کے سیکشن 3 کے تحت آپ وفاقی حکومت کے سامنے نظرثانی کی اپیل دے سکتے ہیں، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ مریم نواز نے ای سی ایل سے نام نکالنے کے لیے حکومت کو کوئی درخواست نہیں دی کیونکہ عدالت سے بہتر ہمارے پاس کوئی فورم نہیں۔
مریم نواز کے وکیل نے عدالت میں کہا کہ حکومتی وزرا بار بار کہہ رہے ہیں کہ وہ مریم نواز کو ملک سے باہر نہیں جانے دیں گے، حکومت خود مریم نواز کو باہر جانے نہیں دینا چاہتی تو حکومت کو کیسے درخواست دے دیں۔
اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ سیاست میں تو مخالف جماعتیں ہوتی ہی ہیں، جس پر وکیل نے کہا کہ عدالتوں کے فیصلے موجود ہیں، عدالت وفاقی حکومت کو درخواست دیے بغیر نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دے سکتی ہے۔
دوران سماعت جسٹس علی باقر نجفی نے ریمارکس دیے کہ آپ کو وفاقی حکومت کو درخواست دینی چاہیے تاکہ وہ اس کا فیصلہ کریں، جس پر وکیل امجد پرویز نے کہا کہ حکومت تو کہتی ہے کہ طوطے کی جان ہمارے پاس ہے، سرکار ماں ہوتی ہے لہٰذا سب کے مسائل حل ہونے چاہئیں۔
اس پرعدالت نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ادارے اپنے اپنے کام کریں، جس پر وکیل نے کہا کہ نواز شریف کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے مریم نواز کو ان کے پاس جانا ہے اور مریم نوازحکومت کو کیسے درخواست دیں، حکومت تو ان کے خلاف اقدامات کرنے کے لیے تیار بیٹھی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: چوہدری شوگر ملز کیس: مریم نواز کی ضمانت منظور، رہائی کا حکم
وکیل کے جواب پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ ہم اس درخواست کو زیرالتوا رکھ کر حکومت پر دباؤ نہیں رکھنا چاہتے، جس پر وکیل نے کہا کہ عدالت اس درخواست کو زیرالتوا رکھ لے اور حکومت کو مریم نواز کی نظرثانی کی درخواست پر فیصلہ کرنے کا حکم دے۔
اس پر حکومت کے وکیل نے کہا کہ عدالت حکومت کو 15 دن کا وقت دے۔
بعد ازاں عدالت نے حکومت کی نظرثانی کمیٹی کو 7 دن میں مریم نواز کا نام ایس سی ایل سے نکالنے کے معاملے پر قانون کے مطابق فیصلے کا حکم دے دیا، ساتھ ہی درخواست کو نمٹا دیا۔
مریم نواز کی درخواست
خیال رہے کہ ہفتہ 7دسمبر کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے اپنا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکال کر 6 ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
مریم نواز نے امجد پرویز ایڈووکیٹ کے توسط سے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی، جس میں وزارت داخلہ، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے)، قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین اور ڈی جی نیب لاہور کو فریق بنایا گیا تھا۔
درخواست میں مریم نواز کی جانب سے موقف اپنایا تھا کہ العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے باوجود بیمار والدہ کو چھوڑ کر بیرون ملک سے والد کے ساتھ واپس آئی لیکن میرا موقف سنے بغیر ہی نام ای سی ایل میں شامل کر دیا گیا۔
مزید پڑھیں: چوہدری شوگر ملز کیس: مریم نواز ضمانت پر رہا
درخواست گزار کا کہنا تھا کہ ای سی ایل میں نام شامل کرنے کا میمورنڈرم غیر قانونی اور آئین کی خلاف ورزی ہے جبکہ نام ای سی ایل میں شامل کرنے کا میمورنڈم اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کی بھی خلاف ورزی ہے۔
مریم نواز نے موقف اپنایا تھا کہ والدہ کی وفات کے بعد والد نواز شریف کی دیکھ بھال وہ ہی کرتی رہی ہیں اور وہ بیماری میں مجھ پر ہی انحصار کرتے ہیں۔
علاوہ ازیں مریم نواز نے پاسپورٹ واپس لینے کے لیے بھی لاہور ہائی کورٹ میں متفرق درخواست دائر کی تھی، جہاں لاہور ہائی کورٹ نے مریم نواز کی ضمانت منظور کرنے کے بعد انہیں پاسپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔
مریم نواز کی ضمانت
خیال رہے کہ 8 اگست 2019 کو چوہدری شوگر ملز کیس میں مسلم لیگ(ن) کی نائب صدر کو ان کے کزن یوسف عباس کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا، بعد ازاں 25 ستمبر2019 کو احتساب عدالت نے انہیں عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا۔
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر نے 30 ستمبر کو اسی کیس میں ضمانت بعد ازگرفتاری کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا تھا۔
تاہم اکتوبر کے اواخر میں ان کے والد نواز شریف کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی تھی جس کے باعث انہوں نے 24 اکتوبر کو بنیادی حقوق اور انسانی بنیادوں پر فوری رہائی کے لیے متفرق درخواست دائر کردی تھی۔
اس درخواست پر سماعت میں نیب کے ایڈیشنل پراسیکوٹر جنرل نے مریم نواز کی انسانی بنیادوں پر ضمانت کی مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں یہ بیان کردیا گیا ہے کہ انتہائی غیرمعمولی حالات میں ملزم کو ضمانت دی جاسکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نواز شریف کو علاج کیلئے 16 دسمبر کو امریکا منتقل کیے جانے کا امکان
انہوں نے کہا تھا کہ مریم نواز کا کیس انتہائی غیرمعمولی حالت میں نہیں آتا۔
تاہم عدالت عالیہ نے مریم نواز کی درخواست ضمانت کو منظور کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دیا تھا لیکن انہیں اپنا پاسپورٹ اور ضمانتی مچلکے جمع کروانے کا کہا گیا تھا۔
بعد ازاں نیب نے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے مریم نواز کو دی گئی ضمانت کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کرلیا تھا۔