دعا منگی کے اغوا کے پیچھے عسکریت پسند گروہ کے ہونے کا شبہ
کراچی: شہر قائد میں پولیس کو یہ ثبوت ملے ہیں کہ جن لوگوں نے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) میں 20 سالہ قانون کی طالبہ دعا منگی کو اغوا کیا تھا ان کا لڑکی کی بحفاظت واپسی سے ایک روز قبل گلشن اقبال میں پولیس سے مقابلہ ہوا تھا۔
پولیس کو اس اغوا کے واقعے میں کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے کچھ عناصر کے ملوث ہونے کا شبہ ہے۔
خیال رہے کہ 30 نومبر کو ڈی ایچ اے کے خیابان بخاری میں 4 مسلح افراد نے دعا منگی کو اس وقت اغوا کیا تھا جب وہ اپنے دوست کے ساتھ سڑک پر چہل قدمی کر رہی تھیں، اس دوران اغوا کاروں نے حارث سہیل کو فائرنگ کرکے زخمی کردیا تھا اور وہ فرار ہوگئے تھے۔
دعا منگی کے اغوا کے موقع پر چلائی گئی گولی کے خول کو فرانزک معائنے کے لیے بھیجا گیا تھا، جو نیپا چورنگی پر ملے ان یہ گولیوں کے خول سے مماثلت رکھتے ہیں جو 3 دسمبر کو پولیس اور مسلح موٹرسائیکل سواروں کے درمیان مقابلے کے دوران چلائی گئی تھیں۔
مزید پڑھیں: ڈیفنس سے اغوا ہونے والی طالبہ دعا منگی گھر واپس پہنچ گئیں
اس مقابلے کے حوالے سے عزیز بھٹی تھانے کے ایس ایچ او عدیل افضل نے ڈان کو بتایا کہ جمعرات کی رات کو گلشن اقبال میں 4 پولیس اہلکار موٹرسائیکل پر پیٹرولنگ کررہے تھے کہ انہوں نے تقریباً ساڑھے 11 بجے موٹرسائیکل پر سوار 2 نقاب پوش افراد کو رکنے کا اشارہ کیا، تاہم مشتبہ افراد نے ان پر اندھا دھند فائرنگ کردی جس پر پولیس نے جواب دیا۔
اس دوران مشتبہ افراد فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے لیکن مقابلے میں کانسٹیبل ارسلان کو 5 گولیاں لگیں اور انہیں ہسپتال منتقل کیا گیا، جہاں ان کی حالت اب بہتر ہے۔
علاقے کے ایس ایچ او کا کہنا تھا کہ انہیں شبہ ہے کہ مقابلے کے دوران ایک حملہ آور زخمی بھی ہوا۔
بیلسٹک میچنگ
دوسری جانب ایک پولیس افسر نے ڈان کو بتایا کہ 30 نومبر کو ڈی ایچ اے میں جائے وقوع سے ملنے والی ایک گولی کے خول اور گلشن اقبال مقابلے میں ملنے والی 5 گولیوں کے خول کو فرانزک سائنس لیبارٹری بھیجا تھا۔
ذرائع کے مطابق لیب کے ایک ماہر نے تصدیق کی کہ تمام 6 گولیاں ایک ہی ہتھیار سے فائر کی گئیں، تاہم ہی یہ بھی بتایا کہ تفتیش کاروں کو شبہ تھا کہ مجرمان دعا کی رہائی سے قبل تاوان وصول کرنے کے لیے ممکنہ طور پر گلشن کے قریبی علاقے میں تھے۔
انہوں نے اس بات کو دہرایا کہ اغوا کے گزشتہ واقعے، جس میں مئی میں ڈیفنس کے ہی علاقے سے اسی طریقے سے ایک بسمہ نامی لڑکی کو اغوا کیا گیا تھا اور اغواکاروں نے تاوان کی رقم جس جگہ وصول کی تھی وہ جمعرات کو ہونے والے انکاؤنٹر کے مقام سے صرف 200 میٹر کے فاصلے پر تھا۔
سیکیورٹی حکام کو یقین ہے کہ دعا سمیت بسمہ کے اغوا میں 'پیشہ ور کرمنل گینگ' ملوث تھا۔
دعا منگی کے اہل خانہ کا عدم تعاون
ذرائع کا کہنا تھا کہ اتوار کو مغوی لڑکی اور ان کے اہل خانہ کا بیان ریکارڈ نہیں کیا جاسکا کیونکہ مبینہ طور پر اہل خانہ، پولیس سے تعاون یا کوئی معلومات شیئر نہیں کر رہے۔
تاہم کالم نگار اعجاز منگی جو لڑکی کے ماموں بھی ہیں انہوں نے میڈیا کے ایک سیکشن کو بتایا کہ دعا اس حالت میں نہیں کہ وہ کوئی بیان دے۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی: دعا منگی کو تاوان کیلئے اغوا کیا گیا، پولیس
ان کا کہنا تھا کہ 'جب ان کی حالت بہتر ہوگی تو وہ یقینی طور پر پولیس کو بیان دیں گی'۔
ساتھ ہی انہوں نے دعویٰ کیا کہ پولیس نے ابھی تک ان کے اہل خانہ سے بیان ریکارڈ کرنے کے لیے رابطہ نہیں کیا۔
ادھر بسمہ اور دعا کے اغوا کے دوران مماثلت کو دہراتے ہوئے پولیس افسر نے کہا کہ یہ بات اہم ہے کہ اغواکاروں نے بسمہ کے ساتھ کوئی بدسلوکی نہیں کی جبکہ یہ رپورٹس بھی ہیں کہ انہوں نے بسمہ کے ساتھ بھی کوئی بدسلوکی نہیں کی۔
'عسکریت پسند عناصر'
افسرنے یہ شبہ ظاہر کیا کہ جس طرح اغواکاروں نے پلان کیا، دونوں لڑکیوں کو اغوا کیا اور پھر ان کے ساتھ سلوک رکھا ہوسکتا ہے کہ ان کا عسکریت پسند گروپ سے تعلق ہو۔
مزید پڑھیں: کراچی: دعا منگی اغوا کے خلاف احتجاج، پولیس کا پیش رفت کا دعویٰ
انہوں نے کہا کہ اغواکاروں نے دونوں لڑکیوں کو بظاہر ان کے حلیے کی وجہ سے اغوا کیا کیونکہ وہ انہیں 'فیشن ایبل مانتے تھے جو اسلامی روایات یا کنونشنز کی پیروی نہیں کرتے' ہیں۔
بات کو جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اغوا کار جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے واقف تھے، ساتھ ہی انہوں نے یہ اشارہ دیا کہ اغوا کاروں کا تعلق عسکریت پسند گروپس کے اس گروہ سے ہوسکتا ہے جو وہ ماڈرن ٹیکنالوجی کا ماہر ہے۔
یہ خبر 09 دسمبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی