• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

اسلام آباد کا حشر بگاڑ دیا،سیاست دانوں کے کہنے پر اونچی عمارتوں کی اجازت دی گئی، جسٹس گلزار

شائع December 6, 2019
عدالت عظمیٰ نے سینٹورس مال تجاوزات کیس کی سماعت کی—فائل فوٹو: محمد عاصم
عدالت عظمیٰ نے سینٹورس مال تجاوزات کیس کی سماعت کی—فائل فوٹو: محمد عاصم

سپریم کورٹ کے جسٹس گلزار احمد نے کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے چیئرمین کو حکم دیا ہے کہ وہ مس کنڈکٹ (خلاف ورزی) کے مرتکب عہدیداروں کے خلاف فوجداری کارروائی کا آغاز کریں۔

ساتھ ہی عدالت انہوں نے چیئرمین کو یہ بھی حکم دیا کہ ادارے کو مالی نقصان پہنچانے والے عہدیداروں سے رقم کی وصولی کریں۔

عدالت عظمیٰ میں جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے سینٹورس مال تجاوزات کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران جسٹس گلزار کیپیٹل انتظامیہ پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'اسلام آباد کا حشر بگاڑ' دیا گیا، یہ آدھا شہر اور آدھا دیہات بن گیا ہے، سیاست دانوں کی ہدایت پر اونچی عمارتوں کی اجازت دی گئی'۔

مزید پڑھیں: ڈی ایچ اے والوں کا بس چلے تو سمندر میں شہر بنا لیں، جسٹس گلزار

انہوں نے پوچھا کہ کیا یہاں زلزلے نہیں آتے'، ساتھ ہی انہوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ 1960 سے دارالحکومت میں تقریباً کوئی پبلک ٹرانسپورٹ نہیں۔

سماعت کے دوران جسٹس گلزار نے ریمارکس دیے کہ ' (اسلام آباد میں) ایک ہلتی ہوئی میٹرو چل رہی ہے، یہاں کوئی رکشہ نہیں ہیں، رکشے لے کر آئیں اور لوگوں کو اپنی ثقافت دکھائیں'۔

اس موقع پر انہوں نے بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے 'ملک میں کام کرنے سے انکار' پر بھی برہمی کا اظہار کیا۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ 'بیرون ملک پاکستانی، لندن میں ٹرانسپورٹ کا نظام چلا رہے ہیں، ہمارے بہترین ٹاؤن منصوبہ ساز امریکا اور کینیڈا چلے گئے، وہ کہتے ہیں کہ وہ جنگل میں کام نہیں کرسکتے، ان کا (پاکستان میں کام) کرنے سے انکار ان کے اور پاکستان کے منہ پر طمانچہ ہے'۔

سماعت کے دوران عدالت نے دارالحکومت کی سڑکوں کی خراب صورتحال کی بھی نشاندہی کی اور کہا کہ کشمیر ہائی وے پر گاڑی چلاتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ کہیں ڈرائیور گاڑی فٹ پاتھ پر نہ چڑھا دے۔

اس موقع پر چیئرمین نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت سے معذرت کی، جس پر جسٹس گلزار نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ قانون کو سمجھ نہیں رہے، یہی قانون پھانسی کے پھندے تک لے جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس گلزار احمد نے قائم مقام چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھالیا

بعد ازاں عدالت نے نیشنل ہائی اتھارٹی کے چیئرمین کو عدالتی احکامات کی روشنی میں اٹھائے گئے اقدامات پر رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی، ساتھ ہی سیکریٹری داخلہ کو انتظامی مسائل حل کرنے سے متعلق رپورٹ پیش کرنے کا کہتے ہوئے سماعت 6 ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ جسٹس گلزار احمد ملک کے اگلے چیف جسٹس ہیں اور وہ اس عہدے کا حلف 21 دسمبر کو اٹھائیں گے۔

یہاں یہ بھی یاد رہے کہ جسٹس گلزار احمد کراچی اور اسلام آباد میں تجاوزات سے متعلق متعدد کیسز کی سماعت کررہے ہیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

Khan Dec 07, 2019 01:12am
السلام علیکم کراچی کا اس سے بھی برا حال ہے تاہم واٹر کمیشن کے حکم پربلند عمارتوں کی تعمیر کچھ عرصہ رک گئی تھی۔ واٹرکمیشن ختم ہونے کے بعد روزانہ کی بنیاد پر 10, 15لور 25 منزلہ بلڈنگوں کے اجازت نامہ کے اشتہارات شائع ہو رہے ہیں کہ اگر کسی شخص کو اعتراض ہو تو وہ وہ متعلقہ آفس اور زیادہ تر کنٹونمنٹ بورڈز کا نام دیا جاتا ہے سے رجوع کرے۔ بظاہر تو یہ ترقی نظر آتی ہے ہے مگر اس سے کراچی کے وسائل پر بے اندازہ بوجھ پڑے گا کنٹونمنٹس والے اس طرح کی بلند عمارتوں کی اجازت دے کر شہر کے مستقبل سے کھیل رہے ہیں۔ کنٹونمنٹس اس لیے نہیں بنائے گئے تھے کہ وہاں پر بلڈنگیں قائم کی جائے۔ معزز عدالت سے درخواست ہے کہ آئندہ سماعت پر واٹر کمیشن ختم ہونے کے بعد کراچی میں بلند عمارتوں کے اجازت ناموں کی تعداد اور اجازت نامہ دینے والے اتھارٹی کے بارے میں معلوم کیا جائے تو پتہ چل جائے گا کہ کون اس شہر کے مستقبل سے کھلواڑ کر رہا ہے۔
Khan Dec 07, 2019 01:12am
ایک اور بات واٹرکمیشن ختم ہونے کے بعد کراچی کے ضلع غربی میں دھڑلے سے غیرقانونی ہائیڈرنٹس قائم ہو چکے ہیں۔ واٹر بورڈ کی نہر اور لائنوں سے پانی چوری کیا جا رہا ہے۔ پولیس اور ڈپٹی کمشنر وغیرہ کارروائی کیلئے تیار نہیں۔ سردی کے باعث لوگ پانی کے لیے زیادہ شور تو نہیں مچا رہے ہے مگر سردی ختم ہوتے ہیں ان غیرقانونی ہائیڈرنٹس سے دوبارہ پانی کا بحران جنم لے گا۔ غیر قانونی ہائیڈرنٹس قائم ہونے سے حکومت کو بھی نقصان ہوتا ہے ہے اور واٹر بورڈ کی آمدنی کم ہو جاتی ہے لہذا لہذا ڈپٹی کمشنر اور آئی جی کو ان کے خلاف کارروائی کا حکم دیا جائے جبکہ ذمہ داری ایس ایچ او پر عائد کی جائے کیونکہ اس کی سرپرستی کے بغیر ہائیڈرنٹس قائم نہیں ہو سکتے نہ چل سکتے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024