• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

اختر مینگل کی حکومت سے اتحاد ختم کرنے کی دھمکی

شائع December 6, 2019
سردار اختر مینگل نکتہ اعتراض پر بات  کر رہے ہیں — فوٹو: ڈان نیوز
سردار اختر مینگل نکتہ اعتراض پر بات کر رہے ہیں — فوٹو: ڈان نیوز

بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل نے حکومتی اتحاد سے علیحدہ ہونے کی دھمکی دے دی۔

ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی صدارت میں قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو احسن اقبال نے سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر جاری ہونے کے باوجود اس پر عمل درآمد نہ ہونے اور رانا ثنااللہ کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ ہونے پر احتجاج کیا۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ پنجاب حکومت نے سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر ماننے سے انکار کر دیا ہے، جس کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی کی قدر سیکشن افسر سے بھی کم رہ گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'پِک اینڈ چُوز' نہیں چلے گا اور ہم اس وقت تک اجلاس کا بائیکاٹ کریں گے جب تک اسپیکر کے احکامات پر عمل نہیں ہوگا۔

قومی اسمبلی کے گرفتار ارکان کو پروڈکشن آرڈر کے اجرا کے باوجود ایوان میں نہ لانے پر (ن) لیگ نے قومی اسمبلی اجلاس سے واک آؤٹ کیا۔

یہ بھی پڑھیں: پیراگون سٹی اسکینڈل: خواجہ سعد رفیق پیرول پر رہا

ابھی مسلم لیگ (ن) کا واک آؤٹ جاری تھا کہ بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل نے نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے کہا کہ 'بلوچستان کے علاقے آواران سے 4 خواتین کو اغوا کر لیا گیا، خواتین پر عقوبت خانے میں تشدد کیا جاتا رہا اور دو روز قبل انہیں جوڈیشل کردیا گیا۔'

انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ 'بتایا جائے بلوچستان میں حکومت کون چلا رہا ہے، نادیدہ قوتیں چلا رہی ہیں یا سول حکومت چلا رہی ہے۔'

سردار اختر مینگل کا کہنا تھا کہ 'خواتین کی گرفتاری سے کیا پیغام جائے گا، دہشت گردوں کے چہرے چھپا کر پیش کیے جاتے ہیں لیکن خواتین کے سامنے لاکھوں روپے اور اسلحہ رکھ کر ان کی تصاویر چلائی جاتی ہیں۔'

انہوں نے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کے حوالے سے کہا کہ 'تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملے گی کہ بلوچ بزرگوں کے تابوت پر تالے لگا دیے گئے لیکن آج کی حکومت اس ڈکٹیٹر کے خلاف مقدمات کو تالے لگانا چاہ رہی ہے، کیا اس سے بلوچستان کو ترقی ملے گی یا نفرت بڑھے گی۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'نہ پچھلی حکومتوں نہ موجودہ حکومت بلوچستان کو ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہے، جون میں بلوچستان کے لیے کمیٹی بنی لیکن اراکین کے ناموں کا ابھی تک پتہ بھی نہیں، آپ بلوچستان کو کالونی کے طور پر ڈیل کر رہے ہیں لیکن جب ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے تو اختر مینگل بھی چاہیے اور شاہ زین بگٹی بھی چاہیے ہوتا ہے۔'

مزید پڑھیں: بی این پی مینگل کی ایک مرتبہ پھر وفاقی حکومت سے علیحدگی کی دھمکی

اس کے بعد اختر مینگل کی سربراہی میں بی این پی، پیپلز پارٹی فاٹا، جی یو آئی ارکان نے اسپیکر ڈائس کے سامنے دھرنا دیا۔

اختر مینگل نے حکومت سے اتحاد ختم کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے گرفتار خواتین کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا اور اپوزیش کے واک آؤٹ میں شامل ہوگئے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت ایوان میں اس وقت تک واپس نہیں آئے گی جب تک خواتین کو رہا نہیں کردیا جاتا۔

واک آؤٹ کے بعد پیپلز پارٹی کے عبدالقادر پٹیل نے کورم کی نشاندہی کردی۔

کورم پورا نہ ہونے پر ڈپٹی اسپیکر نے اجلاس جمعہ کی صبح 11 بجے تک ملتوی کردیا اور وزیر داخلہ کو خواتین کی گرفتاری کا نوٹس لینے کی ہدایت کرتے ہوئے انہیں معاملے پر بریفنگ کے لیے کل طلب کر لیا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024