• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی نے ملک ریاض کی جائیداد کا قبضہ حاصل کرلیا

شائع December 5, 2019
ملک ریاض کے اثاثوں کی تحقیقات کا پہلا ریکارڈ پاکستان تحریک انصاف کےا قتدار میں آنے کے بعد دسمبر 2018 کا ہے—فائل فوٹو: فیس بک
ملک ریاض کے اثاثوں کی تحقیقات کا پہلا ریکارڈ پاکستان تحریک انصاف کےا قتدار میں آنے کے بعد دسمبر 2018 کا ہے—فائل فوٹو: فیس بک

لندن: برطانوی حکام کی جانب سے 19 کروڑ پاؤنڈ کے تصفیے کی پیشکش قبول کرنے کے بعد نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) نے ایک بیان جاری کیا ہے جو پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کی جائیداد فروخت کر کے سپریم کورٹ میں رقم جمع کروانے کے مؤقف سے متضاد ہے۔

خیال رہے کہ 2 روز قبل ملک ریاض نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت بحریہ ٹاؤن کراچی کیس میں 19 کروڑ پاؤنڈز کی رقم جمع کروانے کے لیے برطانیہ میں موجود ظاہر شدہ قانونی جائیداد فروخت کی۔

تاہم جب اس بارے میں این سی اے کے ایک عہدیدار سے پوچھا گیا کہ آیا یہ تصفیہ ملک ریاض کی جانب سے جائیداد فروخت کرنے کا نتیجہ ہے تو انہوں نے ڈان کو بذریعہ ای میل بتایا کہ ’این سی اے نے جائیداد کی ملکیت حاصل کرلی ہے جسے فروخت کر کے آمدنی پاکستان کو واپس کی جائے گی‘۔

یہ بھی پڑھیں: برطانیہ: نیشنل کرائم ایجنسی ملک ریاض سے 19 کروڑ پاؤنڈ کے تصفیے پر رضامند

اس بیان کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ لندن میں ایک ہائیڈ پارک پلیس کے نام سے موجود 50 کروڑ پاؤنڈز مالیت کی جائیداد کا قبضہ اب برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی کے پاس ہے اور اس کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم کسی فرد واحد کو نہیں بلکہ ریاست پاکستان کو دی جائے گی۔

تاہم یہ واضح نہیں ہوسکا کہ اس صورت میں ملک ریاض کس طرح اس رقم کو بحریہ ٹاؤن کیس کی رقم کی ادائیگی کے لیے استعمال کریں گے۔

اس ضمن میں ڈان نے بحریہ ٹاؤن کے ترجمان سے رابطہ کیا تو انہوں نے کوئی جواب دینے سے انکار کردیا۔

یاد رہے کہ رواں برس مارچ میں سپریم کورٹ کے جسٹس شیخ عظمت سعید کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے بحریہ ٹاؤن کراچی کی زمین کو قانونی دائرے میں لانے کے لیے 460 ارب روپے کی پیش کش قبول کی تھی۔

مزید پڑھیں: ملک ریاض: ادنیٰ ٹھیکیدار سے رئیل اسٹیٹ ٹائیکون بننے تک کا سفر

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ سندھ حکومت کی جانب سے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو دی گئی زمین اور اس کا نجی ٹھیکیدار سے تبادلہ اور جو کچھ بھی صوبائی حکومت نے نو آبادیاتی حکومتی زمین کے قانون برائے 1912 کے تحت کیا وہ غیر قانونی تھا۔

دوسری جانب این سی اے کی جانب سے 2 روز قبل یہ بیان سامنے آیا تھا کہ اس نے ملک ریاض کے اہلِ خانہ سے منسلک جائیدادوں اور اکاؤنٹس کی ایک ماہ تک تحقیقات کرنے کے بعد ان کی جانب سے 19 کروڑ پاؤنڈ کی پیشکش قبول کرلی۔

این سی اے کی جانب سے برطانیہ میں ملک ریاض کے اثاثوں کی تحقیقات کا پہلا ریکارڈ پاکستان تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے کے بعد دسمبر 2018 میں سامنے آیا۔

اس حوالے سے 14 اگست 2019 کو جاری کردہ ایک پریس ریلیز میں کرائم ایجنسی کا کہنا تھا کہ ’این سی اے نے اُن 8 بینک اکاؤنٹس کو منجمد کرنے کے احکامات دیے تھے جن میں 10 کروڑ پاؤنڈز موجود ہیں جو مبینہ طور پر کسی دوسرے ملک میں رشوت اور بدعنوانی کے ذریعے حاصل کیے گئے، بعدازاں دسمبر 2018 میں ہونے والی ایک سماعت کے بعد ایک فرد سے منسلک 2 کروڑ پاؤنڈز منجمد کردیے گئے تھے‘۔

یہ بھی پڑھیں: ملک ریاض سے 19 کروڑ پاؤنڈز کی برآمدگی کابینہ اجلاس میں موضوع بحث

بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ ویسٹ منسٹر مجسٹریٹ عدالت نے 12 اگست کو اکاؤنٹ فریزنگ آرڈرز(اے ایف او) جاری کیے جو برطانوی کرمنل ایکٹ 2017 کے تحت اب تک ’فریز کی گئی سب سے بھاری رقم ہے‘۔

مذکورہ معاملے نے بین الاقوامی میڈیا کی سرخیوں میں بھی اپنی جگہ بنائی جس میں دی گارجیئن، الجزیرہ، فنانشل ٹائمز شامل ہیں۔

برطانوی اخباروں نے لکھا کہ ملک ریاض گریڈ ’اے‘ کا 16 ہزار مربع فٹ پر محیط خاندانی گھر ایک ہائیڈ پارک پلیس حکام کے حوالے کریں گے، ایک رپورٹ کے مطابق یہ عالیشان گھر 10 بیڈرومز پر مشتمل مینشن ہے، جس میں سنیما، سوئمنگ پول، جمنازیم، اسٹیم روم اور سپا بھی موجود ہے۔

برطانیہ کی ڈیجیٹل لینڈ رجسٹری کی چھان بین میں یہ بات سامنے آئی کہ برطانوی ورجن آئی لینڈز کی ’الٹیمیٹ ہولڈنگز لمیٹڈ‘ اس جائیداد کی رجسٹرڈ مالک ہے، مذکورہ دستاویز میں 14 نومبر 2019 تک کی معلومات درج تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کراچی کی 460 ارب روپے کی پیشکش قبول کرلی

لینڈ رجسٹری ریکارڈ کے مطابق یہی جائیداد 2016 میں 4 کروڑ 25 لاکھ پاؤنڈز میں حسن نواز شریف سے خریدی گئی تھی، تاہم شریف خاندان کے ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ مذکورہ جائیداد فروخت کرنے کے بعد حسن نواز کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔


یہ خبر 5 دسمبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024