ڈان اسلام آباد کے دفتر کا گھیراؤ
اسلام آباد میں موجود ڈان کے دفتر کے باہر کچھ درجن افراد نے لندن برج پر 2 افراد کو چاقو مار کر قتل کرنے والے شخص کے پس منظر کے حوالے سے خبر شائع کرنے پر احتجاج کیا۔
احتجاج کرنے والے مشتعل مظاہرین نے ڈان اخبار کے خلاف بیننرز اٹھا رکھے تھے جبکہ انہوں نے نعرے بازی بھی کی اور عملے کو عمارت کے اندر محصور کر کے 3 گھنٹے تک دفتر کے باہر موجود رہے۔
مظاہرین نے ملازمین کو عمارت کے اندر داخل ہونے اور باہر نکلنے سے بھی روک دیا تھا جبکہ دفتر آنے والے ڈان اخبار اور ڈان نیوز ٹی وی کے کچھ ملازمین کے ساتھ بد تمیزی بھی کی گئی۔
کیپٹل ایڈمنسٹریشن اور پولیس اہلکاروں کے پہنچنے سے قبل مظاہرین کو عمارت میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے میڈیا ہاؤس کی حفاظت پر مامور سیکیورٹی گارڈز کو گیٹ لاک کرنا پڑے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں ڈان اخبار کی ترسیل میں رکاوٹ کی اطلاعات
جس کے بعد ڈپٹی کمشنر کی موجودگی میں اخبار کی انتظامیہ کے ساتھ ہونے والے طویل مذاکرات کے بعد مظاہرین دھمکیاں دیتے ہوئے منتشر ہوگئے۔
دریں اثنا مذکورہ واقعے کی کئی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں، پارلیمنٹیرینز اور صحافتی تنظیموں کی جانب سے مذمت کی گئی۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے چیئرمین مصطفیٰ نواز کھوکھر نے نامعلوم افراد کی جانب سے ڈان کے دفتر کا گھیراؤ کرنے کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے اسلام آباد پولیس کے انسپکٹر جنرل کو 6 دسمبر کو رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔
اس کے علاوہ انہوں نے پولیس سے ان افراد کے خلاف کی گئی کارروائی کی تفصیلات بھی طلب کیں، جنہوں نے میڈیا ہاؤس کا محاصرہ کیا تھا۔
مزید پڑھیں: ڈان اخبار کی ترسیل میں رکاوٹ آئین کے آرٹیکل19 کی خلاف ورزی قرار
ادھر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ایک بیان میں واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’کسی کو بھی احتجاج کے نام پر میڈیا ہاؤس پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے‘۔
بلاول بھٹو زرداری نے مطالبہ کیا کہ ’جن افراد نے اخبار کے دفتر پر حملہ کیا ان کے خلاف کارروائی کی جائے اور صحافی برادری کا ساتھ دینے کے عزم کا اظہار کیا‘۔
دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم اورنگزیب نے اس واقعے کی اعلیٰ سطح کی تحقیقات کروا کر اس میں ملوث افراد کی شناخت کرکے ذمہ داروں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا۔
ایک بیان میں مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ اخبار کے دفتر پر حملہ کرنے والوں کو سخت سزا دے کر مثال قائم کی جائے تاکہ مستقبل میں اس قسم کے واقعات کو روکا جاسکے۔
یہ بھی پڑھیں: صحافی برادری کا ڈان اخبار سے اظہار یکجہتی کیلئے کیمپ
ان کا کہنا تھا کہ ’مہذب معاشروں میں اس قسم کی حرکات ناقابلِ قبول ہیں‘، عوام، سیاستدان اور میڈیا ایسے عناصر کے خلاف لڑائی کے لیے پُرعزم ہیں۔
علاوہ ازیں نیشنل پارٹی (این پی) پنجاب کے صدر ایوب ملک نے اس واقع کو ’آزادی صحافت پر حملہ قرار دیا‘۔
انہوں نے اخبار کے عملے کو محصور کرنے پر ’نامعلوم افراد‘ کے خلاف سخت کارروائی اور حکومت سے سوشل میڈیا پر موجود فوٹیجز کی مدد سے ان افراد کی شناخت کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔
علاوہ ازیں پاکستان یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) اور نیشنل پریس کلب کے عہدیداران نے بھی مذکورہ واقعے کی مذمت کی۔
مزید پڑھیں: ڈان اخبار کی ترسیل میں رکاوٹیں پیدا کرنے کا سلسلہ جاری
پی ایف یو جے (افضل بٹ) گروپ کے نو منتخب صدر شہزادہ ذوالفقار اور سیکریڑی جنرل ناصر زیدی نے واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا اور کہا کہ یہ واقعہ حکومت کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے اور اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
دوسری جانب نیشنل پریس کلب کے صدر شکیل قرار نے ایک بیان میں کہا کہ ورکنگ جرنلسٹ آزادی صحافت پر قدغن کی اجازت نہیں دے سکتے، ساتھ ہی انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ صحافیوں کی حفاظت کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
یہ خبر 3 دسمبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔