زندگی میں آنے والے مسائل میں چھپے پوشیدہ اسباق
آج کون ہے جو زندگی کی الجھنوں سے پریشان نہیں؟ کیا قدرت نے انسان کو محض تکلیفیں اٹھانے کے لیے دنیا میں بھیجا ہے؟ ایسا ہرگز نہیں۔ زندگی بہت خوبصورت ہے۔ اس کی رعنائیاں تو اپنی جگہ، اس کی پریشانیوں میں بھی اسباق پوشیدہ ہوتے ہیں جو اپنے اور دوسروں کے کام آتے ہیں۔
زندگی کے حُسن سے پوری طرح لطف اندوز ہونے کی واحد شرط یہ ہے کہ انسان مضبوط اعصاب کا مالک ہو، شعور کی دولت سے مالامال ہو اور بنیادی اخلاقی اصولوں سے روگردانی نہ کرے۔ ایسے ہی چند اصول قارئین کے شعور میں اضافے کی خاطر پیش خدمت ہیں۔
مسکن اور مسافر
یہ دنیا تمہارا مستقل مسکن ہے تم نے تو ہمیشہ یہاں رہنا ہے لیکن میں حالتِ سفر میں ہوں یہ دنیا راستے میں پڑتی تھی اس لیے رُک گیا ہوں، مجھے تکلیف نہ پہنچاؤ چند دن سکون سے ٹھہرنے دو مسافر سمجھ کر کہ میں نے تو آگے چلے جانا ہے پھر تم نے ہی ہمیشہ یہاں رہنا ہے اپنے مستقل مسکن میں اس دنیا میں۔
اختلافات اور مشترکہ مقاصد
- نفرت کا بھرپور اظہار
- باہمی اختلافات کے انبار
- تند و تیز لہجوں کی مار
- 24 گھنٹے باہم بیزار
- دھمکیاں اور بے جا تکرار
- ہر وقت باہم برسرِ پیکار
- بدترین باہمی الرجی برقرار
- آر پار کرنے کو ہمہ وقت تیار
- طعن و تشنیع و چیخ و پکار
- ترجیحات میں تفاوت بے شمار
ہونے کے باوجود ہر بار بغض و کینہ سے پاک صلح کر لینے اور ایک مشترکہ مقصد کی خاطر طویل المدتی جدوجہد جاری رکھنے کا فن میاں بیوی سے سیکھنا چاہیے۔
اوقات
اپنی اوقات دیکھ کر چلیں تو اپنی اوقات دکھانے کی نوبت نہیں آتی۔
بھرم، اوقات اور بلیاں
ہر کوئی صرف اپنا بھرم لیے پھرتا ہے ورنہ اپنی اوقات سے کون واقف نہیں ہوتا؟ لہٰذا کبھی
- کسی کی عزت نہ اچھالنا
- کسی پر کیچڑ نہ اچھالنا
- کسی کے عیب نہ اچھالنا
ایسا نہ ہو کہ ایک دن اچانک تمہارے اپنے کرتوتوں کی بلی اچھل کر تمہارے بھرم کے تھیلے سے باہر نکل جائے۔ پھر کہاں اسے پکڑتے پھرو گے؟
میں نے اپنی زندگی میں سیکڑوں لوگوں کو اپنی مفرور بلیوں کے پیچھے دیوانہ وار بھاگتے دیکھا ہے، لیکن یہ بلیاں ایک بار فرار ہوجائیں تو پھر کبھی ہاتھ نہیں آتیں۔
سوچو! ایک بار پھر سے سوچو! اس پہلو پر مسلسل سوچو!
بول کا تول
بول کر تولنا تول کر بولنے سے کہیں مشکل ہوتا ہے کیونکہ تول کر بولنے کے لیے تو محض عقل درکار ہوتی ہے جبکہ بول کر تولنے کے لیے حوصلہ، اعلیٰ ظرفی اور خود احتسابی تینوں کی ضرورت پڑتی ہے۔
واضح رہے کہ تول کر بولنے والے پر بھی بول کر دوبارہ تولنا واجب ہوتا ہے، یعنی
- تول کے چاہے بول نہ بول
- بول کے پھر سے ضرور تول
- رہ گیا ہو اگر کہیں جھول
- تو مت کر ناحق ٹال مٹول
- مان لے اپنا اول فول
- ورنہ کہلائے گا بغلول
انسانیت کا جوہر
2 آنکھیں، 2 کان، کھانے کے لیے ایک عدد منہ، ایک مناسب درجے کی ناک، 2 ہاتھ، 2 بازو، نظام انہضام کا پورا انتظام، 2 پاؤں اور 2 ٹانگیں رکھنے والی ہر مخلوق انسان کہلانے کے لائق نہیں ہوتی۔
انسان تو ایک اندھا، گونگا، بہرا، لُولا اور لنگڑا بھی ہوسکتا ہے، بشرطیکہ اس میں انسانیت کا جوہر موجود ہو۔
اناؤں کی جنگ
اناؤں کی جنگ سے آج تک کوئی غازی بن کر نہیں لوٹا۔ ایسی جنگوں سے ہمیشہ ظالم مرداروں کے بدبودار لاشے اور بے گناہ شہیدوں کی مہک اٹھتی دیکھی ہے، اور جو یہاں اگلے محاذوں پر لڑتے ہیں ان کے تو ٹکڑے تک نہیں ملتے۔
میں جانتا ہوں، تم پیدائشی جنگجو ہو لیکن ہمیشہ اصولوں کی جنگ لڑا کرو صرف اصولوں کی۔
تائید اور اختلاف
بنی آدم اختلاف سے اتنا کمزور نہیں پڑتا جتنا کہ دستیاب تائید سے طاقت پکڑ لیتا ہے۔ اس لیے
غلط سوچ، غلط بات یا غلط عمل کی تائید اس اختلاف سے کہیں زیادہ نقصان دہ ہوتی ہے جو کسی درست سوچ، درست بات یا درست عمل سے کیا جائے۔ لہٰذا اختلافی آوازوں کی نسبت تائیدی الفاظ اور رویے کہیں زیادہ احتیاط کے متقاضی ہوتے ہیں۔
یاد رکھنا! اختلاف کے سامنے حق پر ڈٹے رہنا نسبتاً آسان ہوتا ہے جبکہ تائید کی موجودگی میں ناحق سے ہٹنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔
اختلافِ رائے اور اختلافات
اختلافِ رائے کی بنیاد پر دوسروں کی ذات کی نفی وہی شخص کرتا ہے جو خود سے اختلاف کو اپنی ذات کی نفی سمجھتا ہو۔ اختلاف کرنے والے سے نفرت کرنے لگ جانا ذات کی نفی کرنے سے اگلا درجہ ہے اور لوگوں کی اکثریت اسی درجے پر فائز ہوتی ہے۔
جو تم سے ایک معاملے پر اختلافِ رائے رکھتا ہے، عین ممکن ہے کسی اور معاملے میں وہ تم سے اتفاقِ رائے رکھتا ہو۔ ممکن ہے اختلافِ رائے ہونے کے باوجود وہ تم سے محبت کرتا ہو، پیٹھ پیچھے تمہاری عزت اور مفادات کا تحفظ کرتا ہو، مشکل وقت میں کبھی تمہارے کام آیا ہو یا آئندہ کبھی کام آجائے۔
پس اختلافِ رائے کو کبھی اختلافات کا باعث نہ بنانا کہ یہ بڑی کم ظرفی کی بات ہے اور اختلافات کے ڈر سے کبھی اختلافِ رائے نہ چھوڑنا کہ اس سے انسانی سوچ کا ارتقائی عمل رُک جاتا ہے۔
اختلافِ رائے سنو اور محبت کرو اختلافِ رائے کرو اور احترام کرو
لیکن جہاں اختلافِ رائے احترام سے کیا نہ جائے اور محبت سے سنا نہ جائے، وہاں صرف محبت اور احترام کرو، وہاں اختلافِ رائے کبھی نہ کرو۔
طاقت
ڈرے ہوؤں کو مارنا طاقت کی اخلاقیات نہیں اور اکڑے ہوؤں کو بخشنا طاقت کی نفسیات نہیں۔ طاقت کی نفسیات تو خودبخود بروئے کار آجاتی ہے لیکن طاقت کی اخلاقیات دکھانا خالصتاً ایک شعوری عمل ہے۔
تم اپنی طاقت کا استعمال ضرور کرنا لیکن طاقتوروں کو طاقتیں بخشنے والے سب سے عظیم طاقتور سے ہمیشہ ڈرتے رہنا، کیونکہ وہ طاقت کی اخلاقیات توڑنے والوں کی طاقت سلب کرلیتا ہے اور پھر اس کی جانب سے طاقت کی نفسیات کا وہ اظہار ہوتا ہے جو بڑے سے بڑے طاقتور کو کچل کر رکھ دیتی ہے۔
تبصرے (4) بند ہیں