ملک بھر میں طلبہ یکجہتی مارچ
طلبہ یونین کی بحالی سمیت مطالبات کا چارٹر پیش کرنے کے لیے اسٹوڈنٹ ایکشن کمیٹی (ایس اے سی) کی قیادت میں ملک بھر میں طلبہ یکجہتی مارچ کا انعقاد کیا گیا، جس میں طلبہ، رضاکاروں سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔
اس حوالے سے پروگریسو اسٹوڈنٹس کلیکٹو (پی ایس سی) کی جانب سے پاکستان کے 50 شہروں میں ہونے والے مارچ کے حتمی مقامات کی تفصیل شیئر کی گئی۔
ملک کے کچھ مقامات پر یہ مارچ صبح کے وقت میں شروع ہوا جبکہ دیگر شہروں میں اس کے آغاز کا وقت سہ پہر تھا۔
کراچی
کراچی میں بھی طلبہ یکجہتی مارچ کا انعقاد کیا گیا، ریگل چوک صدر سے کراچی پریس کلب تک اس مارچ میں طلبہ سمیت سول سوسائٹی کے اراکین محمد حنیف، جبران ناصر اور دیگر نے شرکت کی۔
مظاہرین نے ایٹریم مال کے بالمقابل فاطمہ جناح روڈ سے مارچ شروع کیا تو دکانداروں نے شٹر گرانا شروع کردیے، جس کے بعد مارچ اپنے راستے سے ہوتا ہوا کراچی پریس کلب پہنچا۔
مارچ میں شریک طلبہ کی جانب سے 'ہم کیا چاہتے؟ آزادی!" کے نعرے لگائے گئے۔
اس موقع پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے جبران ناصر نے کہا کہ 'میں ہمارے مستقبل کی حمایت کے لیے باہر نکلا ہوں، طلبہ ہمارا مستقبل ہیں اور ہمیں یہ احساس کرنا چاہیے کہ اگر ہم ماضی کے کارناموں پر روشنی ڈالتے رہے تو ہمارا مستقبل کبھی روشن نہیں ہوگا'۔
جبران ناصر کا کہنا تھا کہ 'ملک میں جو حقیقی اور نئی قیادت آتی ہے وہ آبپارا اور پنڈی کے راستوں کے ذریعے نہیں آئے گی بلکہ کالجز اور یونیورسٹیز سے آئے گی'۔
کراچی میں ہونے والے مارچ میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طلبہ بھی شریک ہوئے اور انہوں نے مبینہ طور پر طلبہ کو ہراساں کرنے میں ملوث ہونے پر بلوچستان یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا۔
اسی طرح گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے طلبہ بھی مارچ میں شریک ہوئے اور انہوں نے علاقے میں سہولیات کی کمی اور ہائر ایجوکیشن پر توجہ دینے کا مطالبہ کیا۔
اس حوالے سے ایک شریک طالب علم کا کہنا تھا کہ 'گلگت بلتستان میں صرف ایک یونیورسٹی ہے اور وہ بھی غیرمعیاری ہے، ہم وہاں پڑھ نہیں سکتے اور اسے وجہ سے ہمیں کراچی آنا پڑا'۔
مارچ میں شامل شہر کی نجی جامعات کے طلبہ کا کہنا تھا کہ وہ 'کیمپس میں قیمتیں بڑھنے، ڈریس کوڈ اور ہراساں کرنے پر' احتجاج کر رہے ہیں۔
حیدرآباد
'سرخ ہے، سرخ ہے، ایشیا سرخ ہے' کا نعرہ لگاتے ہوئے مظاہرین نے اولڈ کیمپس سے مقامی پریس کلب کی جانب مارچ کیا۔
مظاہرین نے ڈھول بجاتے ہوئے 'ہم لے کر رہیں گے آزادی، تمہیں دینی پڑے گی آزادی' کے نعرے بھی لگائے اور طلبہ تنظیموں پر پابندی کا خاتمہ اور تعلیم کی فیسوں میں کمی کا مطالبہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ 'تنظیموں پر پابندی ایک آمر نے لگائی تھی تاکہ طالب علموں کی آواز کو دبایا جاسکتے۔
لاہور
اس کے علاوہ صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں طلبہ یکجہتی مارچ میں شرکت کرنے کے ناصر باغ میں جمع ہوئے اور وہاں سے پنجاب اسمبلی کی طرف مارچ کیا۔
اسلام آباد
اسلام آباد میں مظاہرین ڈی چوک پر جمع ہوئے اور پارلیمنٹ سے طلبہ تنظیموں کی فوری بحالی کا مطالبہ کیا۔
پشاور
خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں طلبہ اور سول سوسائٹی کے اراکین نے پشاور پریس کلب سے احتجاجی ریلی نکالی اور صوبائی اسمبلی پہنچ کر شرکا پرامن طور پر منتشر ہوگئے۔
کوئٹہ
بلوچستان یونیورسٹی سمیت مختلف جامعات میں طلبہ تنظیموں پر سیاسی سرگرمیوں کے حوالے سے پابندی کے خلاف اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے زیر اہتمام کوئٹہ میں احتجاجی ریلی نکالی گئی۔
احتجاجی ریلی میں مختلف طلبہ تنظیموں کے رہنماؤں اور کارکنوں نے شرکت کی۔
ریلی کا آغاز بلدیہ لان سے ہوا اور شرکا مختلف شاہراہوں سے ہوتے ہوئے واپس بلدیہ لان پہنچے جہاں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔
ریلی کے شرکا نے مختلف جامعات میں طلبہ تنظیموں پر پابندی کی شدید مذمت کرتے ہوئے فیصلے کو واپس لینے کا مطالبہ کیا۔
مارچ کے شرکا کی حمایت کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی ٹوئٹ کی۔
اپنی ٹوئٹ میں بلاول بھٹو زرداری نے لکھا کہ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ طلبہ یونین کی حمایت کی ہے، شہید محترمہ بیظیر بھٹو کی جانب سے طلبہ یونین کی بحالی کے اقدام کو جان بوجھ کر معاشرے کو ناکارہ بنانے کے لیے کالعدم کیا گیا۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے لکھا کہ آج طلبہ، یونینز کی بحالی، پڑھنے کے حق پر عمل درآمد، سرکاری جامعات کی نجکاری کے خاتمے، جنسی ہراسانی کے قانون کے نفاذ، طلبہ کی رہائش اور کمپسز کے ڈی ملیٹرائزیشن کے لیے طلبہ یکجہتی مارچ میں شریک ہورہے ہیں۔
اپنے ایک اور ٹوئٹ میں ان کا کہنا تھا کہ 'طلبہ کی نئی نسل کی جانب سے پرامن جمہوری عمل کے لیے سرگرمی کا جذبہ اور تڑپ واقعی متاثر کن ہے۔
اس سے قبل ملک بھر میں پی ایس سی اور دیگر تنظیموں کی جانب سے طلبہ یونین کی بحالی اور دیگر مطالبات کے لیے قومی سطح پر ایک (اسٹوڈنٹ ایکشن کمیٹی) قائم کی گئی تھی۔
پنجاب، سندھ، بلوچستان، گلگت بلتستان، خیبرپختونخوا، آزاد کشمیر سے طلبہ تنظیموں کے نمائندے اس ایکشن کمیٹی کا حصہ ہیں۔
اسٹوڈنٹ ایکشن کمیٹی کی جانب سے اپنے مارچ کے انتظامات کے لیے گزشتہ 3 ہفتوں سے سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں کارنر میٹنگ کا انعقاد کیا جارہا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے طلبہ کو مایوس کیا اور بے سمت چھوڑ دیا ہے اور ہائر ایجوکیشن بجٹ کو تقریباً نصف تک کم کردیا ہے جبکہ پاکستان کو ان ممالک کی فہرست میں لے آئی ہے جہاں تعلیم پر بہت کم رقم خرچ کیا جاتا ہے۔
اس حوالے سے بیکن ہاؤس نیشنل یونیورسٹی لاہور سے جرنلزم میں گریجویشن کرنے والے اور اس ایونٹ کے منتظمین میں سے ایک حیدر کلیم کا کہنا تھا کہ 'ہمیں سڑکوں پر آنے کے لیے مجبور کرنے کی وجہ وہ حلف نامہ ہے جس پر داخلے کے وقت ہر طلبہ کو دستخط کرنا ہوتے ہیں، بنیادی طور پر طلبہ یونین پر کوئی پابندی نہیں لیکن کچھ مخصوص احکامات کے ذریعے پابندیاں عائد ہیں لہٰذا طلبہ کیمپس میں مظاہرے یا سیاست میں حصہ نہیں لے سکتے'۔
پروگریسو اسٹوڈنٹس فیڈریشن (پی آر ایس ایف) اور پی ایس سی کے منتظم حیدر کلیم کا یہ بھی کہنا تھا کہ مارچ کے شرکا کے بہت سے مطالبات میں سے ایک یہ ہے کہ ان پابندیوں کو ہٹایا جائے جس نے طلبہ کو یونینز بنانے سے روکا ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس حلف نامے کو لاہور ہائی کورٹ میں بھی چیلنج کیا جارہا تھا لیکن وہاں اس معاملے کے حل ہونے کی کم امید تھی۔
کراچی کی ریگل چوک سے پریس کلب تک ہونے والے اس مارچ میں شامل ایک پولیٹیکل سائنس کے طالبعلم نے ڈان کو بتایا کہ بنیادی طور پر ہمارے 10 مطالبات ہیں لیکن ہر صوبے یا یونٹ کی جانب سے ضرورت کے مطابق فہرست میں مزید اضافہ کیا گیا۔
اس مارچ سے قبل بین الاقوامی جامعات میں پڑھنے والے کچھ پاکستانی طلبہ لیڈرز نے مارچ کی حمایت میں آواز بلند کی تھی۔