اسلام آباد ہائیکورٹ: علیم خان کے خلاف تجاوزات کیس نیب کو ارسال کرنے کا عندیہ
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما علیم خان اور کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے 2 سابق چیئرمینز کے خلاف پارک ویو سٹی ہاؤسنگ سٹی میں مبینہ تجاوزات سے متعلق کیس قومی احتساب بیورو کو ارسال کرنے کا عندیہ دے دیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے علیم خان اور ان کے پارک ویو سٹی کے عہدیداران کے خلاف سی ڈی اے کی زمین، جو کچھ نجی افراد کے پاس تھی، پر تجاوزات کے خلاف ابتدائی اطلاعی رپورٹ (ایف آئی آر) رجسٹر کرنے سے متعلق درخواست پر سماعت کی۔
سی ڈی اے کی ڈائریکٹر لینڈ نشا اشتیاق نے 2 روز قبل عدالت کو آگاہ کیا تھا کہ سی ڈی اے بورڈ نے گزشتہ برس مئی میں علیم خان کو سوک ایجنسی کی زمین پر سوسائٹی تک جانے والی مرکزی سڑک کی تعمیر کی اجازت دی تھی۔
مزید پڑھیں: آمدن سے زائد اثاثے: علیم خان کے جوڈیشل ریمانڈ میں 2 اپریل تک توسیع
عدالت نے سی ڈی اے چیئرمین اور علیم خان کے وکیل ڈاکٹر بابر اعوان کو مختص کردہ زمین نجی ہاؤسنگ اسکیم کو دینے کی اجازت سے متعلق وضاحت دینے اور عدالت کو مطمئن کرنے کا حکم دیا کہ یہ کوئی ایسا کیس نہیں، جسے قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے تحت نیب کو ارسال کیا جائے۔
پارک ویو سٹی ایک ناقابل رسائی علاقے میں تعمیر کیا جارہا تھا اور سی ڈی اے کے ریکارڈ کے مطابق سوسائٹی کے لیے زمین کے استعمال کی اجازت جون 2018 میں اس وقت کے چیئرمین سی ڈی اے عثمان اختر باجوہ نے دی تھی۔
خیال رہے کہ عثمان اختر باجوہ اب وزیراعظم آفس میں ایڈیشنل سیکریٹری تعینات ہیں۔
بعدازاں افضل لطیف کے بطور چیئرمین سی ڈی اے کی مدت کے دوران منصوبے کو سی ڈی اے کی زمین سے ملانے والی سڑک کے استعمال کی اجازت دی گئی تھی۔
اس معاملے کی پیروی سی ڈی اے کے پلاننگ ونگ نے کی تھی جس کی سربراہی اس وقت اسد محبوب کیانی کررہے تھے جو بعد میں ریٹائر ہوگئے تھے۔
سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے سی ڈی اے کے چیئرمین کو معاملے کی تحقیقات کرنے اور اس حوالے سے رپورٹ جمع کروانے کا حکم دیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ماضی کی بے قاعدگیوں پر رپورٹ تیار کرنا چیئرمین سی ڈی اے کے لیے ایک چیلنج ہے۔
تاہم چیئرمین نے سی ڈی اے بورڈ کی جانب سے معاملے کی قانونی حیثیت کی جانچ کے لیے مہلت مانگی۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی رہنما علیم خان کا 15 فروری تک جسمانی ریمانڈ منظور
علاوہ ازیں عدالت کو بتایا گیا کہ پارک ویو سٹی کے لیے نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ (این او سی) کا دوبارہ جائزہ لینے کی ضرورت بھی ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ گزشتہ سماعت میں پیش ہونے والی سی ڈی اے کی ڈائریکٹر لینڈ نے بتایا تھا کہ بورڈ کی جانب سے لیے جانے والے فیصلے کے مطابق نجی ادارے نے ایسا کیا تھا۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ وہ کیپٹل ڈیولپمنٹ آرڈیننس 1960 میں کوئی شق، کوئی قانون نہیں دکھا سکیں جس کے تحت بورڈ کو سرکاری زمین سے متعلق کسی کو اختیار دینے یا کسی نجی ادارے کو معاوضے کے بغیر مالکان کو بے دخل کرنے کا اختیار دیتا ہے۔
ساتھ ہی عدالت نے اسے تشویشناک صورتحال اور عوامی اہمیت کا حامل معاملہ قرار دیا۔
بعدازاں عدالت نے سی ڈی اے بورڈ کو آئندہ سماعت سے قبل قانون کے مطابق تحقیقات کرنے اور فیصلے کرنے کا حکم دیتے ہوئے 6 دسمبر تک سماعت ملتوی کردی۔
یہ خبر 29 نومبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی