• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

پُرتعیش زندگی کے مالک فلم ساز کی بیٹی ڈھابہ کیوں چلا رہی ہے؟

شائع November 29, 2019

میں اسے دکھی داستان نہیں بلکہ ہار نہ ماننے کی حوصلہ افزا کہانی سمجھتا ہوں۔ درد تو ویسے بھی گلی گلی ہمیں مختلف شکلوں میں جابجا نظر آتے ہی ہیں، مگر حوصلہ کم کم ہی دکھائی دیتا ہے۔

اب تو اس افراتفری سے بھرپور زمانے میں لوگ اکثر دوسروں کے مسائل اور تکالیف سُن سُن کر اُکتا جاتے ہیں، اور ڈرتے ڈرتے بس اس جملے کا انتظار کررہے ہوتے ہیں کہ مسائل سنانے والے کب کہیں گے کہ ان کی مالی مدد کی جائے۔ لیکن ذیل میں جو کہانی میں آپ کو بتانے والا ہوں اس میں مسائل تو ہیں لیکن آخر میں آپ سے مدد کی اپیل نہیں کی جاتی۔

ہاں مگر یہ ضرور ممکن ہے کہ کہانی کے انجام پر آپ کے دل میں ایک میٹھی سی چُبھن کا احساس پیدا ہو۔ زندگی کی 2 مختلف انتہائیں دیکھنے والی بنٹی کی کہانی بھی ایسی ہی ہے!

50 برس سے زائدالعمر افراد نے ہمارے ملک میں سنیما کا عروج ضرور دیکھا ہوگا، ایسا عروج جب لوگ ٹکٹ گھروں کی کھڑکیوں کے سامنے قطار اور ہجوم لگائے کھڑے ہوتے اور فلم شو کے ایک ٹکٹ کے لیے کچھ بھی کر گزر جانے کے لیے تیار ہوتے۔ یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ ان وقتوں میں فلمی صنعت سے وابستہ لوگوں نے پاکستانی فلم بینوں کے لیے شاہکار فلمیں تخلیق کیں۔

پاکستان کو کامیاب فلمیں دینے والوں میں ایک نام ایم اے رشید کا بھی ہے۔ ایم اے رشید نے پاٹے خان کے نام سے پہلی فلم بنا کر اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ وہ اپنے دور کے کامیاب ہدایتکار، فلمساز اور مکالمہ نگار تھے اور عالیشان گھر، بڑی گاڑیاں اور ایک پُرتعیش زندگی کے وہ مالک تھے۔

ایم اے راشد شوبز کی شخصیات کے ہمراہ

ایم اے رشید صاحب نے 2 شادیاں کی تھیں اور ان کے ہاں 14 بچوں کی پیدائش ہوئی۔ ان میں سے ایک رافعہ راشد ہیں جنہیں ایم اے رشید صاحب نے بڑے لاڈ پیار سے نوازا۔ لاڈوں پلی وہی رافعہ راشد آج اپنی بیٹی اور نواسے کے ساتھ اسلام آباد کے نواحی علاقے ترامڑی میں واقع ایک چھوٹے سے کمرے میں رہتی ہیں۔

جو کچھ بھی تھا سب ختم ہوگیا، لیکن زندگی کا چرخہ چلانا ہی پڑتا ہے چاہے حالات کتنے ہی کٹھن کیوں نہ ہو۔ جیون ساتھی اور داماد نے چھوڑ دیا، ایک بیٹی ساتھ رہتی ہے جو نفسیاتی مرض میں مبتلا ہے۔

رافعہ اپنے والد اہم اے رشید کے ہمراہ
رافعہ اپنے والد اہم اے رشید کے ہمراہ

جہاں اس خاتون نے زندگی میں بہت کچھ کھو دیا وہیں اپنے اندر حوصلے اور عزم کو پایا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کے بجائے ایک چھوٹی سی دکان کھولنے کا فیصلہ کیا۔

55 سالہ رافعہ رشید عرف بنٹی آنٹی اپنی زندگی میں خوشحالی کے دن گزارنے کے بعد اب جب روزمرہ کے اخراجات اور اپنی بیٹی کے علاج پر ہونے والے خرچے کو پورا کرنے کے لیے پکوان کی دکان چلارہی ہیں، تو بھی ان کے چہرے پر کسی قسم کا رنج یا صدمے کے آثار نظر نہیں آتے، وہ کسی کو یہ بھی نہیں بتاتیں کہ کم عمری میں اپنے والد کی اتنی زیادہ چہیتی بیٹی تھیں کہ دیگر بہن بھائی بھی ان سے حسد کیا کرتے تھے۔

رافعہ راشد اس وقت اسلام آباد میں فوڈ کارنر چلاتی ہیں
رافعہ راشد اس وقت اسلام آباد میں فوڈ کارنر چلاتی ہیں

انہوں نے اپنی زندگی کے 5 برس لندن میں بھی گزارے، انہیں اپنے والد کے ساتھ فلموں کی شوٹنگ کے سلسلے میں دنیا کے مختلف ممالک کی سیر کا موقع بھی ملا۔ ’پاٹے خان‘، ’تم سلامت رہو‘، ’راستے کا پتھر‘، ’ملن صاحب جی‘ سمیت بیشتر کامیاب فلمیں دینے والے ایم اے رشید یکم جون 2011ء کو لندن میں وفات پائی۔ بس پھر والد کے انتقال کے بعد خوشحالی نے بھی ان کی زندگی کو خیرباد کہہ دیا۔

رافعہ رشید کہتی ہیں کہ ’میرے والد کو فلم قاتل کی تلاش پر صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا، انہوں نے 47 سال پاکستان کی فلم انڈسٹری کی خدمت کی‘۔

رافعہ راشد نے اپنی زندگی کے 5 برس لندن میں بھی گزارے
رافعہ راشد نے اپنی زندگی کے 5 برس لندن میں بھی گزارے

انہوں نے مزید بتایا کہ ’میرے شوہر اب میرے ساتھ نہیں ہیں، ایک بیٹی ہے، جو بائی پولر ڈس آرڈر کی مریضہ ہے۔ والد زندہ تھے تو لندن سے ماہانہ 50 ہزار روپے خرچہ بھیجا کرتے تھے، سسرال میں نوکر چاکر بھی تھے، بیٹی پیدا ہوئی اور جب اسکول جانے لگی تو امتحانات میں اول نمبروں کے ساتھ پاس ہوا کرتی تھی، لیکن آگے چل کر اسے بائی پولر ڈس آرڈر کا مرض لاحق ہوگیا۔ جب بیٹی کی شادی کروائی تب داماد اور ان کے گھر والوں کو بتادیا تھا کہ اسے یہ مرض لاحق ہے۔ ابتدائی دنوں میں ان کا رویہ ایسا تھا کہ ہمیں لگا کہ وہ بڑے ہمدرد اور انسان دوست لوگ ہیں۔ ان دنوں میرے پاس پیسے بھی تھے، 2 گھر بھی لاہور میں تھے، داماد مجھ سے پیسے لے جاتا، کبھی کہتا کہ فلاں کاروبار میں رقم انویسٹ کرتا ہوں، کبھی کوئی اور بہانا ہوتا، لیکن کبھی بھی اس نے مجھ سے لی ہوئی رقم نہیں لوٹائی۔ میرے والد نے مجھے جہیر میں 40 تولہ سونا بھی دیا تھا۔ گزرتے وقت کے ساتھ لاہور کے 2 گھر، سونا اور بچائی ہوئی رقم سب بیٹی کی بیماری اور داماد کے اخراجات کی نذر ہوگئے۔ پیسے ختم ہوئے تو داماد نے بھی آنا جانا چھوڑ دیا اور شوہر تو پہلے ہی چھوڑ چکا تھا‘۔

بنٹی آنٹی گزرتے وقتوں کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ’قتیل شفائی جیسے لوگ ہمارے گھر میں ٹھہرا کرتے تھے۔ ہماری پرورش ایسی ہی شخصیات کے زیرِ سائے ہوئی۔ احمد ندیم قاسمی ہمارے پڑوس میں رہتے تھے۔ انکل محمد علی، زیبا آنٹی، ندیم انکل سمیت بہت سارے فلمی ستارے ہمارے گھر آیا کرتے تھے‘۔

اچھے وقت کو یاد کرتے کرتے اچانک بُرے دن یاد آئے تو وہ کہنے لگیں کہ ’ایک وقت ایسا بھی آیا کہ لاہور میں مجھے اولڈ ایج ہوم میں ایک سال گزارنا پڑا، کیونکہ بیٹی کے سسرال کی یہ خواہش تھی کہ میں اس کے ساتھ نہ رہوں۔ میں نے ایسا بھی کیا لیکن ایک سال تک میری بیٹی اسی حال میں رہی، سو جب میرے پاس کچھ نہیں بچا تو میں اپنی بیٹی اور 7 سالہ نواسے حسین کو لے کر اسلام آباد آگئی۔ اسلام آباد آنے کا مقصد یہ تھا کہ بیٹی کا علاج ہوجائے گا، لیکن کوئی ایسا سرکاری ادارہ نہیں جہاں بیٹی کا علاج ہوسکے‘۔

رافعہ راشد قتیل شفائی کے ہمراہ
رافعہ راشد قتیل شفائی کے ہمراہ

انہوں نے مزید بتایا کہ اسلام آباد میں انہوں نے ایک کمرا کرائے پر لیا، جس میں وہ اپنی بیٹی اور نواسے کے ساتھ رہتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ پاکستان میں ہزاروں لوگ ایسے ہیں جن کے اثاثے بیماریوں کی وجہ سے ختم ہوئے اور وہ سڑک پر آگئے ہیں۔ نفسیاتی بیماریوں کو تو پاکستان میں بیماری ہی نہیں مانا جاتا۔ رشتہ دار تو اعتبار ہی نہیں کرتے، الٹا طعنے دیتے ہیں کہ تمہاری بیٹی ڈرامے کرتی ہے۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’میری بیٹی آپ کو بظاہر نارمل نظر آئے گی لیکن اچانک معمولی سی پریشانی پر بھی اسے دورہ پڑ جاتا ہے اور اس کے ہاتھ پاؤں ٹیڑھے ہوجاتے ہیں۔ بیٹی کے علاج پر ماہانہ 8 سے 9 ہزار روپے کا خرچہ ہوجاتا ہے، لیکن میں کس کو بتاؤں؟ اب تو میرے پاس جو کچھ تھا وہ اس کی بیماری پر لگ چکا ہے‘۔

ایم اے راشد نے اپنی بیٹی کو بڑے لاڈ پیار سے پالا
ایم اے راشد نے اپنی بیٹی کو بڑے لاڈ پیار سے پالا

رافعہ رشید اپنے والد کے انتقال کے بعد تعمیرات کے کام سے بھی منسلک رہیں، لیکن بیٹی کی بیماری کے باعث اس کام کو وقت نہ دے سکیں۔ آپ ان سے بات کریں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ انہوں نے اپنی زندگی کے کٹھن حالات کو روگ نہیں بنایا۔ وہ کافی ہنس مُکھ ہیں اور شفیق رویے کی مالک بھی، حال کی تکلیف دہ کیفیت سے جان چھڑانے کا ان کے پاس ایک آسان طریقہ ماضی کی خوشگوار یادوں میں پناہ لینا بھی ہے۔

وہ صبح 5 بجے اٹھتی ہیں، لاہوری چنے، آلو کے کباب، روٹی، سلاد رائتہ اور دیگر چیزیں خود تیار کرتی ہیں۔ 7 بجے اپنی دکان پر آجاتی ہیں اور دکان کی صفائی بھی وہ خود ہی کرتی ہیں۔ ساری تیار کی ہوئی چیزیں ایک سادہ سے بنے شوکیس کے اندر رکھتی ہیں۔ اگر اسلام آباد کے نواحی علاقے ترامڑی میں ان کی چھوٹی سی دکان پر پراٹھا یا انڈے کا آرڈر آجائے تو وہ گھر سے بنواکر گاہک کو بھیج دیتی ہیں۔

ان کی فکروں کا محور بس ان کی بیٹی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’بیٹا تم ہی بتاؤ کہ میرے بعد میری بیٹی کا کیا ہوگا؟ اس کا شوہر اسے چھوڑ گیا، اس کا باپ اس کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔ اس دور میں تو نفسیاتی امراض کی شکار خواتین بھی جنسی ہوس کا نشانہ بنادی جاتی ہیں اور کوئی داد فریاد بھی نہیں ہوتی‘۔

رافعہ راشد بشریٰ بی بی اور وزیرِاعظم عمران خان تک یہ پیغام پہنچانا چاہتی ہیں کہ شیلٹر ہوم کا قیام قابلِ تعریف اقدام ہے لیکن اس کے ساتھ پاکستان کے بڑے شہروں میں نفسیاتی مریضوں کے لیے ہاسٹل بنانے کی بھی ضرورت ہے، جہاں ان کے علاج، رہائش اور عزت نفس کی حفاظت کا بندوبست ہو۔

بنٹی آنٹی کے پاس ایک شاندار ماضی ہے، جو تصاویر کی صورت البموں میں قید ہے۔ کم سنی کی تصاویر دکھاکر وہ مجھے بتاتی ہیں کہ یہ شمیم آرا ہیں، وحید مراد اور رانی کی گود میں بیٹھی یہ بچی میں ہی ہوں، وہ قتیل شفائی کی گود میں بھی نظر آتی ہیں۔

رافعہ اپنے والد کے ہمراہ
رافعہ اپنے والد کے ہمراہ

ماضی کی گزرگاہ سے ہوتے ہوئے جب حال میں لوٹیں تو مجھ سے کہنے لگیں کہ ’میرے والد نے مجھے حوصلہ سکھایا تھا اور یہی وہ حوصلہ تھا جو اب مجھے کام آرہا ہے۔ میں کسی سے خیرات نہیں مانگتی، البتہ اپنی ریاست سے اتنا مطالبہ ضرور کرتی ہوں کہ وہ اپنے شہریوں کے ساتھ اپنائیت کا سلوک روا رکھے‘۔

بنٹی آنٹی کے مطابق خواتین کو اگر کاروبار میں آسانیاں پیدا کرنے کے لیے قرضہ فراہم کیا جائے اور انہیں ابتدائی 3 ماہ میں سود معاف کیا جائے تو بہت ساری خواتین چھوٹے چھوٹے کاروبار کی مدد سے اپنے مسائل خود حل کرسکتی ہیں، انہیں کسی کا محتاج نہیں ہونا پڑے گا۔

یقیناً اسلام آباد کے نواحی علاقے میں یہ چھوٹی سی دکان ملک کے ایک بڑے فلم ساز کی بیٹی کی دکان ہے، لیکن انہوں نے اپنے والد کا نام کبھی استعمال نہیں کیا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ دکان سے روزانہ کتنا کما لیتی ہیں؟ تو جواب آیا کہ ’فی الحال تو کام اتنا زیادہ نہیں ہے۔ مگر امید نہیں چھوڑنی چاہیے‘۔

عبدالرزاق کھٹی

عبدالرزاق کھٹی اسلام آباد کے سینئر صحافی ہیں، سیاسی و پارلیمانی معاملات کو قریب سے دیکھتے ہیں، سماجی مسائل ان کا پسندیدہ موضوع ہے۔ ٹوئٹر پر ان سے رابطہ کیا جاسکتا ہے razakkhatti@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (33) بند ہیں

واجد علی Nov 29, 2019 06:17pm
سر آپ نے تو رلا دیا۔ کس قدر دکھ کی بات ہے۔ تاہم مصنف نے یہ نہیں بتایا کہ ان کے جو باقی بہن بھائی ہیں وہ کیا اُن کے ساتھ رابطہ استوار کیے ہوئے ہیں؟
Bashir Jamali Nov 29, 2019 06:27pm
سلام ہو اس خاتون کے حوصلے کو۔ عبدالرزاق کی بڑی عمدہ تحریر ہے۔
Naved Nov 29, 2019 07:08pm
Apart from everything we all need to give our children good education, capability to earn, to put hard work in life and last but not the least to pray for Allah's rehmat to lead a good & respectable life. Allah may help this lady to solve her problem and make her life easy.
Ahmad Raza khan Nov 29, 2019 08:19pm
یہ بہت اچھی ااسٹوری ہے ۔ اتنی اچھی کہ ایک دم کانپ سا گیا ہوں ۔ انسان کس طرح کے حالات سے کب گزر سکتا ہے کچھ معلوم نہیں ۔ ایک امید بھی نظر آتی ہے کہ وہ لوگ خوش قسمت ہیں جو ہمت نہیں ہارتے ۔
KHK Nov 29, 2019 09:48pm
Afsos sad afsos ke kam kerne ko hiqarat se dekha jata hai jub ke chri kerne me koi aar nahi.
SMI Nov 29, 2019 11:01pm
May Allah make it easy for her and for all people who are going through tough time Ameen
ibrahim kumbhar Nov 30, 2019 12:08am
کافی حوصلہ مند خاتون ہیں آپ نے ان کا اچھا مقدمہ اوراچھےفورم پر پیش کیا
muhammad kashif Bhatti Nov 30, 2019 02:19am
kindly share her tel number sir
Muhammad Ahmed Nov 30, 2019 04:38am
Can you please provide some kind of contact information, I need to talk to her.
Sami Nov 30, 2019 05:00am
To be honest, somebody (from this Riasat Madina Govt. Pakistan) should hold collar of her son in law and get all of her money back.
Raees Ahmad Nov 30, 2019 07:47am
proud of Pakistan
Syed Ghazanfar Abbas Nov 30, 2019 09:26am
A tearful story. Inspiring as well. Some kind of forum from the concerned industry should have come forward to help her establishing her this food business on a wider scale.
Chughtai rs Nov 30, 2019 12:19pm
Great comment.
Ejaz Hassan Nov 30, 2019 01:19pm
Nice story Email ID of the writer is required.
محمد فیاض راجہ Nov 30, 2019 01:40pm
بہت خوبصورت اور لاجواب تحریر۔۔۔۔ معاشرے کو جنجھوڑتی ہوئی۔۔۔ کھٹی صاحب شاندار۔۔۔
HonorBright Nov 30, 2019 05:24pm
She is not made of ordinary stuff, after having owned everything in life to be deprived of everything else but your own self to fall upon...just reminds me of the triviality of my own trials..brave woman
Annu Nov 30, 2019 05:44pm
A nice past , courage of present. Such stories are lesson learning. Thanks
abdul Razzaq Nov 30, 2019 08:26pm
Email of blog writer [email protected]
Fazal Dec 01, 2019 07:29am
سٹوری نہیں تحریر یا جگ بیتی کہیں تو بہتر ہوگا
Majid Dec 01, 2019 09:53am
well a great moral story .........her committment and love for her daughter is highly appreciateable.....our institutions are almost failed in all cases to give justice to those who dont have enough money and time to go through the whole expensive and tricky process of justice....as in this case against her son in law who looted her.
Khalid Khan. Dec 01, 2019 08:46pm
Proud of you mam, working is honorable
Basharat Qamar Dec 02, 2019 04:00am
a strong lady. Thank you for sharing such a wonderful real story. InshAllah Pakistan will change soon and such kind of peoples will be helped in a better way.
Basharat Qamar Dec 02, 2019 04:04am
Moral of the story: Give your children the Best Education so they can survive well. Looks like that his Dad gave her everything but no good education so she could have done something better. But still she has learned to be an entrepreneur from her Dad and that is why doing a respectful business.
Rehan Tahir Dec 02, 2019 11:14am
Look in the pictures. In one picture, you can see the telephone number of her food corner.
راجہ رضوان Dec 02, 2019 05:44pm
بہت ہی اعلی اور پر اثر تحریر ، ایک بڑے انسانی المیے اور ایک باہمت خاتون کی داستان کو بہت ہی خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے ،
Iftikhar Khan Dec 02, 2019 11:13pm
Very sad to read it. She is great lady. Can you please provide me some contact address.
Bozdar, M. Dec 03, 2019 11:57am
اس خاتون کی ھمت اور جدوجہد کو سلام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔برے وقت آنے کا کوئی پتہ نہیں، لیکن انہوں نے جس انداز سے اپنے اچھے دن بھلا کر زندگی کی گاڑی کھنچنا شروع کیا ہے، بہتوں کے لیے ایک حوصلے سے کم نہہیں۔ زبردست۔
abdul Razzaq Dec 03, 2019 12:34pm
اس اسٹوری کا بہت ہی زیادہ ریسپانس آیا ہے، اور یہ ریسپانس خود رافعہ رشید کے لئے بھی حیران کن تھا، کافی دوستوں نے رافعہ رشید سے رابطے کے لئے میرا ای میل مانگا تھا، اور بیشتر نے رافعہ رشید بی بی کا نمبر مانگا تھا، تاکہ وہ ان سے رابطہ کرکے اپنا حصہ ڈال سکیں، میں یہاں رافعہ رشید کا نمبر درج کررہا ہوں +923338467032
MA Dec 04, 2019 06:08pm
A very inspiring story. May ALLAH SWT help her and others who are going through such times.
sk Dec 04, 2019 07:13pm
bht afsoos howa..lykin bht himat wali khatoon hain acha kis kisi k aage hath nai phelaya ...allah raziq hai banda nai..aap preshan na hon wo palne wala hai..allah aasaniyan paida kre
mohsan Dec 05, 2019 04:47pm
bilkul thek bat ki ap ne
Mohammad Waqas Dec 05, 2019 07:06pm
Ghurbat aur mushkil waqt mein bhi himmat na haarne wali khatoon ki dilchasp story. Bayan ka andaz bhi achchha hai.
Zack khan Dec 05, 2019 08:00pm
hats off to this woman.

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024