’جاؤ، اپنی ماں بہن کے بال کاٹ کر پیسہ کما لو‘
محبوب کی زلفیں نہ جانے کتنی نظموں، غزلوں، افسانوں اور گیتوں کا موضوع بن چکی ہیں۔ کبھی گھٹا کہہ دیا گیا کبھی اسے چھاؤں کا سامان بنا لیا گیا۔ لیکن میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کی محبوب کی یہ زلفیں ’زر‘ کا سبب بھی بن سکتی ہے، اور صرف آپ کے محبوب کی زلفیں ہی کیوں؟ آپ کی اپنی زلفیں بھی آپ کو مالی فائدہ پہنچا سکتی ہیں۔
جی ہاں، آپ اپنے بالوں کو بیچ کر پیسے کما سکتے ہیں، لہٰذا گرتے بالوں سے پریشان ہونے کے بجائے انہیں کموڈٹی کے طور پر دیکھیے اور خود کو بزنس مین سمجھیے۔ اگر اب آپ کا تجسس بڑھتا جارہا ہے بالوں کو بیچنے کا یہ سارا معاملہ آخر ہے کیا، تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، کیونکہ ہم آپ کو سب بتانے جارہے ہیں۔
شاید کم لوگوں کو ہی یہ معلوم ہو کہ پاکستان انسانی بال برآمد کرنے والا دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ انسانی بال برآمد کرنے والے دیگر ملکوں میں بھارت، افغانستان، ویتنام، نائجیریا، برما، امریکا، سنگاپور، برازیل اور ہانگ کانگ نمایاں ہیں۔
مقامی ڈیلرز یہ بال 18 سے 20 ڈالر پر فی کلو گرام خریدتے ہیں، جنہیں دھونے اور پیک کرنے کے بعد دوگنے داموں پر فروخت کیا جاتا ہے۔ ان مرحلوں سے گزرنے کے بعد ہمارے ہم وطنوں کے بال چین برآمد کردیے جاتے ہیں۔
پنجاب کے ضلع وہاڑی سے تعلق رکھنے والے ناہید اختر، ’وحید ہیئر کمپنی‘ کے مالک ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 2006ء میں ایک چینی باشندے نے انہیں بالوں کے کاروبار کا آئیڈیا دیا تھا۔ جب ناہید کو آئیڈیا پسند آیا تو انہیں اس حوالے سے خصوصی ٹریننگ بھی دی گئی۔ اس وقت وہ ایک چینی کمپنی سے منسلک ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں روزانہ تقریباً ایک ٹن کی مقدار میں بالوں کو جمع کیا جاتا ہے، یوں اس اعتبار سے ماہانہ 30 ٹن بال برآمد کیے جا رہے ہیں۔
بالوں کے اس کاروبار سے منسلک تقریباً تمام پاکستانی ڈیلرز چین کو بال برآمد کرتے ہیں کیونکہ چین سے مناسب قیمت اور اچھا منافع بھی مل جاتا ہے۔
مقامی ڈیلر 3 ہزار سے 4 ہزار روپے فی کلو کے حساب سے خواتین سے اصلی بال خریدتے ہیں۔ بالوں کی صفائی اور پیکجنگ کے بعد کئی گنا اضافی داموں پر فروخت کیا جاتا ہے، بعض اوقات تو 3 سے 4 لاکھ فی کلو کے حساب سے بھی یہ بال بیچے جاتے ہیں۔ بس اس کا انحصار خریدنے والے پر ہوتا ہے۔
ناہید اختر کہتے ہیں کہ بالوں کی مصنوعات بنانے والی چینی کمپنی ’ریبیکا ہینان ہیئر پراڈکٹ پرائیویٹ لمیٹڈ’ کے ساتھ 50 ہزار ملازمین کام کر رہے ہیں، اسی سے اندازہ لگائیں کہ بالوں کی انڈسٹری کتنی بڑی صنعت بن چکی ہے۔ ہم اپنے سیلزمین کو موٹرسائیکل پر اسپیکر لگوا کر دیہی علاقوں میں بھیجتے ہیں، اسپیکر سے ریکارڈ شدہ اعلان بار بار لوگوں کی سماعتوں تک پہنچایا جاتا ہے جسے سُن کر لوگ اپنے بال بیچنے آجاتے ہیں۔
یہ کاروبار پاکستان کے دیگر علاقوں تک بھی پھیل چکا ہے۔ لودھراں کے محمد اختر بھی اسی کاروبار سے منسلک ہیں۔ وہ صبح سویرے موٹرسائیکل پر مائک اور اسپیکر لگا کر اپنے گھر سے نکلتے ہیں اور اور ضلع لودھراں کے نواحی علاقوں بالخصوص دیہی علاقوں کا رخ کرتے ہیں، جہاں ان کے اسپیکر سے یہ اعلان بار بار دہرایا جاتا ہے کہ گرے ہوئے بال دیں اور 3200 روپے سے 3500 روپے فی کلو کے حساب سے پیسے لے لیں۔
محمد اختر سے میری ملاقات چک نمبر 26/m میں ہوئی جہاں وہ نہر کے کنارے کھڑے اپنا اعلان دہرا رہے تھے۔ بالوں کے کاروبار کے حوالے سے ہونے والی تفصیلی گفتگو کے دوران انہوں نے مجھے بتایا کہ اس وقت وہ ایک مقامی ڈیلر کے ساتھ بطور سیلز مین کام کر رہے ہیں۔
اختر دیہی علاقوں سے بال خرید کر لودھراں کے ایک ڈیلر کو فروخت کرتے ہیں اور مناسب پیسے کما لیتے ہے۔ ان کے نزدیک یہ کاروبار کافی نفع بخش ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’سارا خرچہ نکال کر روزانہ اوسطاً 1500 روپے سے 2 ہزار روپے کما لیتا ہوں۔ گھر کے اخراجات پورے کرنے میں یہ رقم کافی مددگار ثابت ہوتی ہے‘۔
جب اختر سے پوچھا کہ اس کے لیے یہ کتنا آسان کام ہے؟ تو اس نے شرمندگی کا اظہار بھی کیا اور دھیمے لہجے میں بتایا کہ صاحب یہ کام منافع بخش تو ہے مگر عزت افزا نہیں۔ کیونکہ اس وقت دل دکھتا ہے جب چند دیہاتی اس پر غیر اسلامی کام کا فتویٰ لگا کر بے عزتی کرتے ہیں اور بعض اوقات گالم گلوچ کے ساتھ پیٹنے کو بھی آتے ہیں۔
اختر کہتا ہے کہ ایک دیہات میں جب وہ گیا تو ایک بزرگ خاتون اعلان سن کر قریب آئیں اور بُرا بھلا کہنا شروع کردیا۔ ’وہ مجھ پر چیخنے لگیں کہ یہاں سے نکل جاؤ! اور گھر جاکر اپنی ماں بہن کے بال کاٹ کر پیسہ کما لو۔ ان کی باتیں سن کر بہت افسوس ہوا کیونکہ میں زبردستی تو کسی سے بال نہیں لے رہا۔ میں تو پیسوں کے عوض گرے ہوئے اور ناکارہ بال لیتا ہوں جو کئی خواتین خود بیچتی ہیں اور دورانِ کنگھی گرنے والے بال اکٹھے کرکے مجھے فروخت کرتی ہیں۔ میرا نہیں خیال کہ اس میں کچھ غلط ہے‘۔
ایک خاتون نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انہوں نے ایک بار اپنے بال اکٹھے کرکے فروخت کیے تھے، جس کے انہیں 125 روپے دیے گئے، مگر وہ خاتون سمجھتی ہیں کہ یہ فعل مذہبی طور پر غلط ہے لہٰذا اب وہ بالوں کو اکٹھا نہیں کرتیں۔
فرحت بی بی نامی خاتون نے بتایا کہ ’دیہات میں اعلان سننے کے بعد میں نے اپنے گرے بالوں کو اکٹھا کرنا شروع کیا، لیکن جب میری ساس کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا اور مجھے اس کام سے باز رہنے کے لیے کہا۔ مگر میرے خیال میں بال فروخت کرنے میں کوئی حرج نہیں، تاہم ساس کی ناراضگی کی متحمل نہیں ہوسکتی اس لیے میں اب اپنے بال فروخت نہیں کرتی‘۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ، دراصل ان دیہاتوں میں اکثر خواتین اپنے گرتے بالوں کو گڑھے میں ڈال دیتی ہیں اور یہی سلسلہ نسل در نسل سے چلا آرہا ہے۔
میں نے لودھراں سے تعلق رکھنے والے سب ڈیلر شاہد سے پوچھا کہ وہ بال سیل مین سے لینے کے بعد کہاں فروخت کرتے ہیں اور ان بالوں کو کس چیز کے لیے استعمال کیا جاتا ہے؟ شاہد نے جواب دیا کہ وہ یہ بال خرید کر اسلام آباد فروخت کرتے ہیں جہاں سے ان کو چین درآمد کیا جاتا ہے۔ چین میں ان کی مختلف مصنوعات تیار کی جاتی ہیں، زیادہ تر بالوں کو وگز کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے، اس کے علاوہ یہ بال کھلونوں میں بھی استعمال ہوتے ہیں، مثلاً چند صنعتیں گڑیا کے سر پر اصلی بال ہی لگاتی ہیں۔
صوبہ بلوچستان کے علاقے برکھان کے رہائشی رحمت اللہ کا کہنا ہے کہ ’یہاں کے مقامی لوگ تو یہ کاروبار نہیں کرتے البتہ پنجاب سے کچھ لوگ ادھر موٹرسائیکل پر اسپیکر لگائے اعلان کرتے ہیں کہ کوئی بال دینا چاہے تو معقول قیمت میں بیچ سکتا ہے۔ یہ کاروبار آہستہ آہستہ یہاں بھی پہنچ رہا ہے‘۔
صادق آباد کے رہائشی وسیم ارشد کا کہنا ہے کہ ’بالوں کو خریدنے کے خواہاں ہر کچھ ماہ بعد یہاں آتے ہیں۔ اس عرصے میں علاقے کی خواتین بالوں کو اکٹھا کرتی رہتی ہیں اور جب بال خریدنے والے آتے ہیں تو وہ ان بالوں کے ذخیرے کو فروخت کردیتی ہیں‘۔
حیدرآباد میں مقیم جمال سوہو کے مطابق سندھ میں بھی اس کاروبار کا آغاز ہوچکا ہے مگر شہری علاقوں کی نسبت دیہی علاقوں میں اس کا زیادہ رجحان پایا جاتا ہے۔
بہاولپور کی رہائشی سمیرا بی بی کہتی ہیں کہ ’بالوں کو ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ ان سے کچھ پیسے کما لیے جائیں، پھر انہی پیسوں سے معیاری شیمپو اور ہیئر آئل خرید کر بالوں کو مزید گھنا اور لمبا بنایا جاسکتا ہے، ویسے بھی عورت کا ایک تہائی حسن بالوں سے ہی ہوتا ہے‘۔
ملتان کے ہیئر اسٹائلر عدنان کے مطابق ان کے پاس 7 ہزار سے 25 ہزار تک کی وگز دستیاب ہیں اور لوگ لگوا بھی رہے ہیں اور زیادہ تر لوگ چین سے درآمد شدہ وگز استعمال کرتے ہیں۔ فیشن کے شوقین خواتین و حضرات تو وگز لگواتے ہی ہیں لیکن آجکل چونکہ گنج پن کا مرض کافی عام ہوگیا ہے اسی لیے زیادہ تر اسی مرض کے متاثرین وگز لگوانے آتے ہیں۔
وزارتِ صنعت و تجارت نے رواں سال کے آغاز میں قومی اسمبلی کو بتایا تھا کہ چین کو اب تک ایک لاکھ 5 ہزار 461 کلوگرام انسانی بال برآمد کیے جاچکے ہیں، جن کی کل مالیت ایک لاکھ 32 ہزار ڈالر بنتی ہے۔
بالوں کے ایک مقامی ڈیلر بتاتے ہیں کہ انہوں نے چند برس قبل 5 ہزار روپے فی کلو کے حساب سے بھی بال خریدے تھے، اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت بال بیچنے کا اتنا زیادہ رجحان نہیں تھا جتنا اب ہے۔
میں نے ان سے پوچھا کہ آپ گھر گھر جاکر بال خریدتے ہیں، اس کے بجائے حجام سے رابطہ کیوں نہیں کرتے؟ تو انہوں نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ حجام کے پاس چھوٹے بالوں کا ذخیرہ ہوتا ہے جو دیگر استعمال کے قابل نہیں رہتے، اس لیے ہم انہیں نہیں خریدتے۔
تبصرے (6) بند ہیں