• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

'عدالتوں کو تنقید کا خوف نہیں'، وزیراعظم کے خلاف توہین عدالت کی درخواست مسترد

شائع November 26, 2019
وزیراعظم کی تقریر پر ان کے خلاف یہ درخواست دائر کی گئی — فائل فوٹو: عمران خان فیس بک پیج
وزیراعظم کی تقریر پر ان کے خلاف یہ درخواست دائر کی گئی — فائل فوٹو: عمران خان فیس بک پیج

اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف دائر کی گئی توہین عدالت کی درخواست کے قابل سماعت ہونے سے متعلق محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے درخواست کو مسترد کردیا۔

ساتھ ہی عدالیہ عالیہ کی جانب سے کہا گیا کہ عدالتوں کو تنقید کا خوف نہیں اور نہ ہی وہ اس معاملے میں حساس ہیں۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی عدالت عالیہ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سلیم اللہ خان کی جانب سے عمران خان کی تقریر کے خلاف دائر توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کی۔

واضح رہے کہ درخواست گزار کی جانب سے عمران خان کی اس تقریر کا حوالہ دیا گیا ہے جو انہوں نے ہزارہ موٹروے کے حویلیاں مانسہرہ سیکشن کی افتتاحی تقریب کے موقع پر کی تھی۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم عمران خان کی نااہلی سے متعلق درخواست پر سماعت آئندہ ہفتے مقرر

عمران خان نے اس تقریر کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ اور سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس گلزار احمد سے کہا تھا کہ وہ عدلیہ پر عوام کا اعتماد بحال کریں۔

عمران خان کا یہ بیان لاہور ہائیکورٹ کے اس فیصلے کے چند روز بعد سامنے آیا تھا جس میں نواز شریف کو طبی بنیادوں پر 4 ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دی گئی تھی۔

اس درخواست پر آج ہونے والی سماعت میں عدالت عالیہ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ وزیراعظم کے تقریر سے آپ کو کیا پریشانی ہے؟ کیا آپ منتخب وزیراعظم کا ٹرائل کرانا چاہتے ہیں؟ کیا آپ اس کے نتائج سے آگاہ ہیں؟ کیا آپ وزیراعظم کو نااہل کرانا چاہتے ہیں؟ جس پر درخواست گزار نے جواب دیا کہ وزیراعظم نے عدلیہ کی تضحیک کی۔

درخواست گزار کی بات پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالتیں تنقید کو خوش آمدید کہتی ہیں، اس پر سلیم اللہ خان نے جواب دیا کہ تنقید اور تضحیک میں فرق ہوتا ہے۔

جس پر عدالت عالیہ کے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ توہین عدالت فرد اور عدالت کے درمیان ہوتی ہے، اس حوالے سے عدالت نے ایک فیصلہ جاری کیا ہے، جس پر درخواست گزار نے کہا کہ میں آفیسر آف دی کورٹ ہوں اور عدالت کو آگاہ کر رہا ہوں۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے توہین عدالت کا گرشتہ روز والا فیصلہ پڑھا ہے جس میں توہین عدالت کے حوالے سے اصول طے کر دیے ہیں، پہلے آگاہی نہیں تھی، ابھی تو توہین عدالت کے حوالے سے آگاہی بھی ہو گئی ہے۔

بعد ازاں عدالت نے سلیم اللہ خان کی درخواست قابل سماعت ہونے سے متعلق فیصلہ محفوظ کرلیا، جسے بعد میں سنایا گیا۔

عدالت عالیہ نے 3 صفحات کا تحریری فیصلہ جاری کیا، جس میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف دائر کی گئی درخواست کو مسترد کردیا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے فیصلے میں لکھا کہ تقریر کے مندرجات پر تبصرہ کیے بغیر یہ واضح ہے کہ عدالتوں کو تنقید سے خوف نہیں اور نہ ہی وہ اس معاملے پر حساس ہیں۔

فیصلے میں کہا گیا کہ عدالتیں ایسی نیک نیتی میں کی جانے والی تنقید کے عام حق کے استعمال کی حوصلہ شکنی نہیں کرتی جو انصاف کے نظم و ضبط اور منصفانہ ٹرائل کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی نہیں کرتیں۔

عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ پاکستانی عوام کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کو سب سے اعلیٰ ایگزیکٹو پبلک آفس کے لیے منتخب کیا گیا ہے اور 2007 کی تاریخی وکلا تحریک میں ان کے کردار کو تسلیم کیا گیا۔

عدالتی حکم کے مطابق عدالت اس بات سے مطمئن ہے کہ 'الفاظ کے انتخاب سے قطع نظر' وزیراعظم انصاف کے نظام کی سالمیت یا عدالتوں کے وقار کو مجروح کرنے کا ارداہ نہیں رکھتے تھے۔

ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ شک کا فائدہ ہمیشہ عوام کے نمائندوں کے حق میں جانا چاہیے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصلے میں مزید کہا کہ لہٰذا قابل وزیراعظم کو مکمل طریقے سے بریف نہیں کیا گیا تھا جس کی وجہ سے وہ اپنی تقریر کے دوران حقیق میں غلط بیانات دے چکے تھے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز ایڈووکیٹ سلیم اللہ خان وزیراعظم عمران خان کی اعلیٰ عدلیہ سے متعلق تقریر پر ان کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان کی نااہلی درخواست: 'لارجر بینچ بنانے کا فیصلہ آئندہ سماعت پر کریں گے'

درخواست گزار نے موقف اپنایا تھا کہ 18 نومبر کو عمران خان کی تقریر میں اعلیٰ عدلیہ کو اسکینڈلائز کرنے کی کوشش کی گئی۔

عدالت میں دائر درخواست میں موقف اپنایا گیا تھا کہ وزیراعظم کی تقریر توہین عدالت کے زمرے میں آتی ہے، ساتھ ہی انہوں نے اس تقریر کی ٹرانسکرپٹ کو بھی درخواست سے منسلک کیا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی گئی اس درخواست میں قانون کے تقاضے پورے کرتے ہوئے کارروائی کی استدعا کی گئی تھی۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024