ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی بحریہ کے سربراہ کو برطرف کردیا
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بحریہ کے سربراہ رچرڈ اسپنسر کو نیوی ایلیٹ فورس سے تنازع میں نظم و ضبط کی خلاف ورزی کے الزام میں عہدے سے برطرف کردیا جس کے بعد انہوں نے صدر تنقید کا نشانہ بنایا۔
خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق رچرڈ اسپنسر بطور سویلین نیوی سیکریٹری کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے لیکن صدر ٹرمپ کی فوجی معاملات میں مداخلت کے باعث عسکری قیادت میں غصہ پایا جاتا ہے۔
امریکی میڈیا کو جاری ایک خط میں ٹرمپ کا حوالہ دیتے ہوئے رچرڈ اسپنسر کہنا تھا کہ ‘مجھے تعینات کرنے والے کمانڈر انچیف کے ساتھ میرا اعتماد اچھے حکم اور نظم کے حوالے سے بنیادی اصولوں پر اس طرح کا نہیں رہا’۔
انہوں نے کہا کہ ‘میں امریکی نیوی کے سیکریٹری کے عہدے سے برطرفی کو قبول کرتا ہوں’۔
مزید پڑھیں:ڈونلڈ ٹرمپ نے جنگی جرائم کے مرتکب متعدد امریکی فوجیوں کو معاف کردیا
رپورٹ کے مطابق برطرف نیوی سربراہ پر قواعد کی خلاف ورزی کا تنازع نیوی ایلیٹ کے اہلکارایڈورٹ گیلگر کے فیصلے پر شروع ہوا تھا جنہیں ایک ہائی پروفائل کیس میں جنگی جرائم کے الزامات عائد کیے گئے تھے لیکن جرم اس سے کم ثابت ہوا تھا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر میں اپنے پیغام میں ایڈورڈ گیلگر فیصلے پر اعتراض کیا تھا۔
امریکی صدر نے کہا تھا کہ ‘نیوی کی جانب سے جس طرح ایڈورڈ گیلگر کا ٹرائل کیا گیا اس پر میں خوش نہیں ہوں، ان کے ساتھ بری طرح پیش آئے حالانکہ وہ تقریباً تمام الزامات سے بری ہوچکے تھے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘میں ایڈورڈ کے عہدے کو بحال کرتا ہوں تاکہ گزشتہ انتظامیہ سے زیادہ قیمت ادا ہو’۔
اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ سیکریٹری دفاع مارک ایسپر کا کہنا تھا کہ انہیں اسپنسر کے استعفے کے حوالے سے کہا گیا تھا کیونکہ ‘وہ معاملات پر وائٹ ہاؤس کا اعتماد کھوچکے ہیں’۔
خیال رہے کہ ٹرمپ کی جانب سے معافی حاصل کرنے والے نیوی افسر پر 2017 میں عراق میں ایک قیدی کو چھریوں کے وارسے مارنے کا الزام تھا۔
یہ بھی پڑھیں:امریکی،آسٹریلوی پروفیسرز کی رہائی کیلئے 3 طالبان رہنماؤں کو رہا کردیا،افغان صدر
رواں برس جولائی میں انہیں ان الزامات سے بری کردیا گیا تھا تاہم قیدی کی لاش کے ساتھ دیگر ساتھیوں کے ہمرا گروپ تصویر بنوانے کے جرم میں سزا دی گئی تھی جس کے نتیجے میں ان کے عہدے میں تنزلی ہوئی تھی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 17 نومبر کو قتل اور جنگی جرائم کے الزام میں قید چند سابق امریکی فوجیوں کی سزا کو معاف کردیا تھا جس پر ماہرین نے انہیں تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس اقدام کو قانون کی عمل داری کی توہین قرار دے دیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق امریکی فوج کے فرسٹ لیفٹیننٹ کلنٹ لورینس نے 2012 میں افغانستان میں تین غیر مسلح افغان شہریوں پر فائرنگ کا حکم دیا تھا جس کے نتیجے میں دو شہری ہلاک ہو گئے تھے۔
اس جرم میں انہیں 19سال کی سزا دی گئی تھی اور وہ 6سال کی سزا کاٹ چکے تھے تاہم امریکی صدر نے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ان کی سزا ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔