• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

سنگین غداری کیس: پرویز مشرف کی درخواست پر وکیل کو 2 نکات پر دلائل دینے کا حکم

شائع November 25, 2019
19 نومبر کو اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے پرویز مشرف سنگین غداری کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا تھا — فائل فوٹو: اے پی
19 نومبر کو اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے پرویز مشرف سنگین غداری کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا تھا — فائل فوٹو: اے پی

لاہور ہائی کورٹ نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت کے اقدام کے خلاف دائر درخواست کو قابل سماعت ہونے سے متعلق وکیل کو 2 نکات پر دلائل دینے کا حکم دے دیا۔

جسٹس سید مظہر علی اکبر نقوی نے سابق صدر پرویز مشرف کی درخواست پر سماعت کی، اس دوران سابق صدر کی جانب سے ان کے وکیل خواجہ طارق رحیم پیش ہوئے۔

عدالت نے پرویز مشرف کے وکیل کو ان 2 نکات پر دلائل پیش کرنے کا حکم دیا کہ جب سپریم کورٹ میں پرویز مشرف کے خلاف کیس زیر سماعت ہے تو لاہور ہائی کورٹ اس کیس کو کیسے سن سکتی ہے ؟، دوسرا یہ کہ پرویز مشرف اسلام آباد کے رہائشی ہیں تو لاہور ہائی کورٹ میں انکی درخواست کیسے قابل سماعت ہے؟

قبل ازیں سماعت کے آغاز پر پرویز مشرف کی درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس سید مظہر علی اکبر نقوی نے ایڈووکیٹ خواجہ طارق رحیم سے درخواست کے قابل سماعت ہونے سے متعلق اسفسار کیا۔

مزید پڑھیں: پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ محفوظ

جس پر وکیل نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف کیسز کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کیس میں بھی کیسز اسلام آباد کے تھے لیکن لاہور ہائی کورٹ نے نواز شریف کی درخواست کو قابل سماعت قرار دیا تھا۔

وکیل نے مزید کہا کہ وفاقی حکومت کا مطلب پورا پاکستان ہے، کسی بھی ہائی کورٹ سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔

خواجہ طارق رحیم نے عدالت کو بتایا کہ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کا کیس اُس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کی منظوری کے بعد شروع کیا گیا تاہم وفاقی کابینہ سے منظوری نہیں لی گئی تھی۔

بعدازاں جسٹس سید مظہر علی اکبر نقوی نے سابق صدر کے وکیل کو درخواست کے قابل سماعت ہونے سے متعلق 2 پوائنٹس پر دلائل دینے اور عدالت کی معاونت کا حکم دیتے ہوئے سماعت منگل تک ملتوی کردی۔

خیال رہے کہ 19 نومبر کو اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے پرویز مشرف سنگین غداری کیس کا فیصلہ 28 نومبر تک کے لیے محفوظ کرلیا تھا۔

جس کے بعد 23 نومبر کو پرویز مشرف نے اپنے خلاف سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت کی جانب سے فیصلہ محفوظ کرنے کے اقدام کو لاہور ہائیکورٹ میں چینلج کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سنگین غداری کیس: مشرف نے فیصلہ محفوظ کرنے کا اقدام عدالت میں چینلج کردیا

سابق صدر کی جانب سے ایڈووکیٹ خواجہ طارق رحیم نے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کے ٹرائل میں قانونی تقاضے پورے نہیں کیے۔

خواجہ طارق رحیم کی جانب سے استدعا کی گئی تھی کہ لاہورہائیکورٹ، اسلام آباد کی خصوصی عدالت کو پرویز مشرف غداری کیس کا فیصلہ سنانے سے روکنے کے احکامات جاری کرے۔

انہوں نے درخواست میں نشاندہی کی تھی کہ جنرل (ر) پرویز مشرف بیماری کی وجہ سے بیرون ملک زیر علاج ہیں اور اسی وجہ سے خصوصی عدالت میں اپنا موقف پیش نہیں کرسکے تھے۔

علاوہ ازیں درخواست میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کا حوالہ بھی دیا گیا تھا۔

سنگین غداری کیس کا پس منظر

خیال رہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف وفاقی حکومت کی جانب سے وزارتِ داخلہ کے ذریعے سنگین غداری کیس کی درخواست دائر کی گئی تھی، جسے خصوصی عدالت نے 13 دسمبر 2013 کو قابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے سابق صدر کو اسی سال 24 دسمبر کو طلب کیا تھا۔

اس کیس میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے نومبر 2013 میں ایڈووکیٹ اکرم شیخ کو پروسیکیوشن کا سربراہ مقرر کیا تھا۔

ابتدائی طور پر جنرل (ر) پرویز مشرف کی قانونی ٹیم نے ایڈووکیٹ اکرم شیخ کی بطور چیف پراسیکیوٹر تعیناتی چیلنج کی تھی لیکن غداری کیس کے لیے مختص خصوصی عدالت کے ساتھ ساتھ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس چیلنج کو مسترد کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: پرویز مشرف سنگین غداری کیس: جلد فیصلے کیلئے وفاقی حکومت کی اپیل

فروری 2014 میں جنرل (ر) پرویز مشرف عدالت میں پیش نہیں ہوئے تھے جس کے بعد عدالت نے 18 فروری 2014 کو ان کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے تھے۔

مارچ 2014 میں خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس میں سابق صدر پر فرد جرم عائد کی تھی جبکہ اسی سال ستمبر میں پروسیکیوشن کی جانب سے ثبوت فراہم کیے گئے تھے۔

عدالت نے 8 مارچ 2016 کو جنرل (ر) پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں کرمنل پروسیجر کوڈ (سی آر پی سی) کی دفعہ 342 کے تحت بیان ریکارڈ کروانے کے لیے طلب کیا تھا۔

بعد ازاں عدالت نے 19 جولائی 2016 کو جنرل (ر) پرویز مشرف کو مفرور قرار دے کر ان کے خلاف دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کردیے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی جائیداد ضبط کرنے کا بھی حکم دے دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پرویز مشرف سنگین غداری کیس: جلد فیصلے کیلئے وفاقی حکومت کی اپیل

تاہم اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم امتناع کے بعد خصوصی عدالت پرویز مشرف کے خلاف مزید سماعت نہیں کرسکی تھی جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کے حکم کے بعد وہ ملک سے باہر چلے گئے تھے۔

یاد رہے کہ گزشتہ سال 2018 کے آغاز میں خصوصی عدالت نے غداری کیس کی سماعتیں دوبارہ شروع کی تھی اور حکم دیا تھا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کا کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کیا جائے، جس کے بعد مسلم لیگ (ن) کی سابق حکومت نے مئی میں عدالتی احکامات پر عمل کرتے ہوئے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کردیا تھا۔

بعد ازاں 11 جون 2018 کو سپریم کورٹ نے جنرل (ر) پرویز مشرف کا قومی شناختی کارڈ (این آئی سی) اور پاسپورٹ بحال کرنے کا حکم دیا تھا۔

جس کے بعد رواں سال یہ معاملہ خصوصی عدالت میں زیرسماعت آیا تھا، جہاں 8 اکتوبر کو اس کیس کی 24 اکتوبر سے روزانہ سماعت کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

تاہم کیس میں اہم موڑ تب آیا تھا جب 25 اکتوبر کو موجودہ حکومت نے سنگین غداری کیس میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے مقدمے میں سرکاری پراسیکیوٹر (استغاثہ) کی پوری ٹیم کو فارغ کردیا کیونکہ یہ ٹیم مسلم لیگ (ن) کے سابق دور حکومت میں بنائی گئی تھی۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024