سی پیک کا قرضہ مجموعی قرضے کا صرف 7 فیصد ہے، اسد عمر
وفاقی وزیر منصوبہ بندی و خصوصی اقدامات اسد عمر کا کہنا ہے کہ پاکستان کا مجموعی قرضہ 74 ارب ڈالر ہے اور اس میں سے چین کا قرضہ 18 ارب ڈالر ہے۔
کراچی پریس کلب میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسد عمر کا کہنا تھا کہ پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) سے متعلق قرضوں کے بارے میں امریکا کی قائم مقام نائب سیکریٹری ایلس ویلز کا بیان حقائق پر مبنی نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کا بیرونی قرضہ اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ اس کا بوجھ معیشت پر اثر انداز ہورہا ہے، یہ قرضے ماضی میں حاصل کیے گئے تھے اور اس کی وجہ چین نہیں بلکہ برآمدات میں کمی اور در آمدات کا تیزی سے بڑھنا ہے جس کی وجہ سے پیدا ہونے والے خسارے کو پورا کرنے کے لیے ہم نے قرضے لیے جو بڑھتے گئے‘۔
مزید پڑھیں: سی پیک، پاکستان پر قرضوں کے بوجھ میں اضافہ کرے گا، امریکا کا انتباہ
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان کو جو مجموعی قرض ادا کرنا ہے وہ 74 ارب ڈالر ہے اور اس میں سے چین کا 18 ارب ڈالر ہے اور عوامی قرضے کے اندر جو سی پیک کا قرضہ ہے وہ 5 ارب ڈالر ہے جو مجموعی قرضے کا صرف 7 فیصد بنتا ہے‘۔
وزیر منصوبہ بندی کا کہنا تھا کہ ’قرضوں کی ادائیگی کے ذریعے اقتصادی ترقی کو فروغ ملے گا، آئندہ چند برسوں میں کمرشل قرضوں میں کمی آئے گی‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت نے چین سے جو قرضہ لیا ہے وہ اوسطاً 20 سال کے لیے ہے اور اس پر سود کی شرح 2.34 فیصد ہے اور جو گرانٹ اس کے ساتھ ہمیں ملتی ہے، اس کو بھی شامل کیا جائے تو قرضے پر اوسط سود کی شرح 2 فیصد سے بھی کم رہ جاتی ہے‘۔
سی پیک سے پاکستان کی ترقی محدود ہونے کے امریکی دعوے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’ان کا تجزیہ حقیقت سے مکمل مترادف ہے، سی پیک کا زیادہ تر حصہ سڑکوں اور انفراسٹرکچر کے علاوہ توانائی کے منصوبوں پر ہے اور سی پیک کا دوسرا مرحلہ اس ہی طرف جارہا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’آئندہ ایک سے دو ماہ میں پہلے اقتصادی زون کا سنگ بنیاد رکھ دیا جائے گا اور اس کے بعد خصوصی اقتصادی زونز یکے بعد دیگرے بنتے رہیں گے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’امریکا اور چین کے درمیان 5 جی کی جنگ چل رہی ہے اور چین ٹیکنالوجی کا سب سے بڑا ذریعہ بنتا جارہا ہے، ہمیں چین سے تعلقات کو مزید بڑھانا ہے‘۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا، سی پیک میں کرپشن کے الزامات میں احتیاط کرے، چین
انہوں نے کہا کہ ’سی پیک کا مقصد یہ نہیں کہ ہم امریکا یا کسی کے خلاف ہوں، ہم سب کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں، امریکی کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے ہم ہمیشہ خوش آمدید کہیں گے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ امریکا، یورپ، مشرق وسطیٰ ہر جگہ سے سرمایہ کاری آئے تاہم جو ممالک ہمارے مشکل وقت میں ساتھی بنے ہیں ہم ان کو چھوڑ نہیں سکتے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے خطے میں امن کے لیے پاکستان کی کوششوں کا اعتراف کیا خوش آئند ہے، خطے میں امن ہوگا تو معاشی ترقی ہوسکے گی‘۔
ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’سی پیک کے خلاف ایک مہم چلائی گئی تھی، ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس مہم کا حصہ امریکا بھی تھا یا نہیں تاہم ابھی جو ہورہا ہے وہ چین اور امریکا کے درمیان جو معاشی جنگ جاری ہے یہ اس کا نتیجہ نظر آتا ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’چین اور ہماری دوستی میں کوئی کمزوری نہیں آئی، سی پیک کے پہلے مرحلے سے ہم آگے بڑھ رہے ہیں اور اب دوسرے مرحلے میں جارہے ہیں‘۔
ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’سی پیک کے تحت مکمل یا جاری منصوبے کی کل مالیت 29 ارب ڈالر سے زائد ہے‘۔
مزید پڑھیں: سی پیک کے 11 ترقیاتی منصوبے مکمل، 11 پر کام جاری
سی پیک کے کریڈٹ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’سی پیک کا کریڈٹ گزشتہ تمام حکومتوں کو دینا چاہوں گا اور ان شااللہ جب ہماری حکومت ختم ہوگی تو کم از کم احسن اقبال صاحب یہ ضرور کہیں گے کہ سی پیک پر بہتر کام ہوا ہے‘۔
موجودہ دور حکومت میں مہنگائی کی شرح میں اضافے اور عوام کو چور و ڈاکوؤں کی حکومت یاد آنے کے حوالے سے سوال پر اسد عمر کا کہنا تھا کہ ’عوام کو چور و ڈاکو اس لیے یاد آرہے ہیں کہ ان کی زندگی میں جو مشکلات پیش آرہی ہیں وہ انہی کی وجہ سے ہے، ایک حالیہ سروے کی رپورٹ کے مطابق 2 تہائی پاکستانی کہتے ہیں کہ پاکستان میں جو مہنگائی ہے وہ چور و ڈاکوؤں کی وجہ سے ہی ہے‘۔
واضح رہے کہ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں جنوبی ایشیائی امور کی سب سے اعلیٰ عہدیدار ایلس ویلز نے گزشتہ روز ایک ’غیر معمولی‘ تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ سی پیک منصوبہ پہلے سے قرضوں کے بوجھ تلے دبے، بدعنوانی میں اضافے کا سامنا کرنے والے پاکستان کے لیے مزید مشکلات کا باعث بنے گا جبکہ منافع اور روزگار چین کو ملے گا۔
انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ معاون سیکریٹری ایلس ویلز کا کہنا تھا کہ سی پیک پاکستان کے لیے امداد نہیں بلکہ مالی معاملات کی ایسی شکل ہے جو چین کی سرکاری کمپنیوں کے فوائد کی ضمانت دیتا ہے جبکہ پاکستان کے لیے اس میں انتہائی معمولی فائدہ ہے۔