حکومت کے احساس پروگرام سے مخالفین کو فائدہ پہنچ رہا ہے، پی ٹی آئی اراکین کی تنقید
اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے قانون سازوں نے شکوہ کیا ہے کہ حکومت کے احساس پروگرام سے پی ٹی آئی کے کارکنوں کو کم ریلیف جبکہ اپوزیشن جماعتوں کے کارکنوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کی زیرِ صدارت پی ٹی آئی کی پارلیمانی کمیٹی کے حالیہ اجلاس میں اراکین اسمبلی نے حکومت کے پروگرام احساس پر تحفظات کا اظہار کیا اور شکوہ کیا کہ اس کے تحت پی ٹی آئی کے ووٹرز اور کارکنوں کو بہت کم ریلیف فراہم کیا جارہا ہے۔
ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ قانون سازوں نے وزیراعظم کو بتایا کہ احساس پروگرام بنیادی طور پر اپوزیشن جماعتوں کے کارکنوں اور ووٹرز کو فائدہ پہنچارہا ہے۔
علاوہ ازیں پی ٹی آئی اراکین نے وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے سماجی تحفظ اور غربت مٹاؤ پروگرام ڈاکٹر ثانیہ نشتر کی کارکردگی پر تنقید کی اور کہا کہ انہیں صرف کاغذی کارروائی یا سروے کرنے کے بجائے کچھ عملی کام بھی کرنا چاہیے۔
ذرائع نے کہا کہ قانون سازوں نے ثانیہ نشتر کو مذکورہ معاملے پر اپنا موقف پیش کرنے کا موقع نہیں دیا اور انہیں اس قدر دباؤ کا شکار کیا کہ وہ رو پڑیں، ثانیہ نشتر اجلاس چھوڑ کر جانے لگیں تھیں جب وزیراعظم نے مداخلت کی اور اجلاس کے شرکا کو انہیں مذکورہ معاملے پر اپنی پوزیشن بیان کرنے کا موقع دینے کا کہا۔
مزید پڑھیں: احساس پروگرام پاکستان کو فلاحی ریاست بنائے گا، وزیراعظم
اس حوالے سے رابطہ کرنے پر ثانیہ نشتر نے ڈان کو بتایا کہ پی ٹی آئی کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کے دوران ان پر بہت زیادہ دباؤ ڈالا گیا تھا اور انہیں بہت سے الزامات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے کہا کہ انہوں نے اجلاس کو آگاہ کیا کہ احساس پروگرام کے فوائد سے اپوزیشن جماعتوں کے حامی اور کارکنان مستفید ہوسکتے ہیں کیونکہ یہ فوائد 2009 میں شروع کیے گئے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے تحت کارڈ ہولڈرز کو فراہم کیے جارہے تھے۔
خیال رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا آغاز کیا تھا اور غربت سے متعلق سروے کی بنیاد پر ماہانہ مالی معاونت کے کارڈز جاری کیے گئے تھے۔
ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے کہا کہ بی آئی ایس پی پروگرام اب احساس پروگرام کا حصہ ہے کیونکہ کوئی نیا سروے نہیں کیا گیا ہمیں بی آئی ایس پی کی جانب سے 2009 میں کیے گئے سروے کے تحت لوگوں کو ریلیف فراہم کرنا تھا۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ احساس پروگرام کے تحت اب ایک نیا سروے کیا جارہا ہے جو ایک یا 2 ماہ میں مکمل ہوجائے گا۔
انہوں نے کہا کہ 'ایک مرتبہ نیا سروے مکمل ہوجائے گا تو یہ پروگرام ان تمام افراد کو ریلیف فراہم کرے گا جنہیں پہلے بی آئی ایس پی میں شامل نہیں کیا گیا تھا'۔
ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے کہا کہ 'گزشتہ برس احساس پروگرام کے لیے مجموعی طور پر 120 ارب روپے مختص کیے گئے تھے لیکن رواں مالی سال میں حکومت نے اسے 190 ارب روپے تک بڑھادیا ہے'۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم نے احساس سیلانی لنگر اسکیم کا افتتاح کردیا
معاون خصوصی نے کہا کہ احساس پروگرام کے تحت عوامی فلاح بہبود کے 134 اقدامات اٹھائے جائیں گے جن میں صحت، تعلیم، مواصلات، ریلویز، خوراک کا تحفظ، سروس سیکٹر اور ٹرانسپورٹیشن شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ احساس پروگرام کے تحت کیا جانے والا نیا سروے اتنا جامع ہے کہ اگر اسے حکومت کی جانب سے منظور کیا جاتا ہے تو ملک گیر سطح پر مردم شماری کروانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
حالیہ سروے میں مصروف بی آئی ایس پی کے ایک عہدیدار نے کہا کہ ' سروے اتنا جامع ہے کہ یہ نہ صرف ہر گھر کی معلومات اور لوگوں کی تعداد بلکہ یہاں تک کہ ہر گھر میں الیکٹرانک اشیا جیسے ٹی وی، ایل سی ڈی، فریج، واشنگ مسین اور دیگر گھریلو استعمال کی اشیا کی تعداد سے متعلق معلومات بھی فراہم کرے گا'۔
ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے کہا کہ عوام کو مستفید کرنے کے بہتر طریقہ کار کے لیے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام اصل غریب کی صحیح اور واضح شناخت کے لیے ایک نئی 2019 نیشنل سوشواکنامک رجسٹری تیار کررہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'اسے نظرثانی سرویز، سیلف رجسٹریشن اور دکھوں کے ازالے کے طریقہ کار اور ڈیٹا اینالیٹکس کے استعمال سے لائیو رجسٹری میں بھی منتقل کیا جائے گا'۔
مذکورہ رجسٹری شفاف ہوگی اور اس میں تجدید کا طریقہ کار ہوگا، جس سے ون–ونڈو احساس بنے گا اور اسے سماجی تحفظ کے تمام اقدامات سے جوڑا جائے تاکہ متعدد پروگراموں کے تحت ایک مخصوص گھرانے کو دیے گئے فوائد کا پتہ لگایا جاسکے۔
اسی طرح کسی بینیفشری کی شناخت اسے شامل کرنے یا خارج کرنے سے متعلق واضح طریقہ کار بھی نیشنل سوشواکنامک ڈیٹا پالیسی کے تحت ترتیب دیا جائے گا۔
احساس پروگرام کی حکمت عملی کے مطابق حکومت، پاکستان کو ریاست مدینہ کے اسلامی نظریاتی اصولوں کی بنیاد پر ایک فلاحی ریاست بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
اس پروگرام کے بنیادی مقاصد میں کم از کم ایک کروڑ خاندانوں کے حفاظت، 38 لاکھ افراد کے لیے روزگار کے مواقع، ایک کروڑ خاندانوں کو علاج تک مالی رسائی، 5 لاکھ طلبہ کے لیے وظائف اور مراعات (50 فیصد لڑکیوں کے لیے)، 70 لاکھ افراد کی مالی اور ڈیجیٹل شمولیت (90 فیصد خواتین) غربت میں کمی کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا اور مختلف سماجی شعبوں میں شراکت داری اور اقدامات کو فروغ دینا ہے۔
ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے کہا کہ وفاقی حکومت کی 34 ایجنسیاں اور تمام یونٹس احساس پروگرام پر عملدرآمد کا ٹاسک دیا گیا تھا اور ہر محکمے کو عام آدمی کے لیے کچھ مراعات لانی ہوتی ہیں۔
وفاقی یونٹس اور وزارتیں آزادانہ کام کرتی ہیں اور معاون خصوصی کو جواب دہ نہیں تو ان کی کارکردگی کی نگرانی اور انہیں ہدایات جاری کرنے سے متعلق سوال کے جواب میں معاون خصوصی ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے کہا کہ 'اصل میں احساس ہیں اور وہ خود ہی متعقلہ محکموں کی کارکردگی کی نگرانی کریں گے اور انہیں ہدایت جاری کریں گے'۔
یہ خبر 22 نومبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی