ہم کیوں ناکام ہوتے رہے اور بنگلہ دیش کامیاب کیسے ہوتا رہا؟
کچھ کے لیے یہ بات کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں ہوگی اور کسی کے لیے یہ امید کی کرن ہوگی، اگر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت مولانا فضل الرحمٰن کا مقابلہ کرتے کرتے، کسی نہ کسی معیشت کو سہارتے دیتے ہوئے، چند ’جگاڑو‘ کام کرتے اور درخت لگاتے لگاتے اپنے 5 سال مکمل کرلے۔
اب تو حکمراں جماعت کی جانب سے بدعنوانوں کو جیل میں ڈالو پر مبنی یک نکاتی ایجنڈا غیر مؤثر قانونی نظام کی وجہ سے ناکام ہوگیا ہے۔ (یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ اعلی سیاسی شخصیت پر لگنے والے تمام کیسوں میں صرف العزیزیہ کیس پر ہی سزا سنائی گئی ہے، وہ بھی ایسے جج کی طرف سے جو مختلف حوالے سے متنازع رہے ہیں)۔ پھر نواز شریف اور آصف زرداری جیسے تجربہ کار سیاستدانوں کو ان کی بیماری کی وجہ سے ہمدردی بھی مل گئی۔
چنانچہ 2023 کے عام انتخابات میں اپوزیشن جماعتوں کی کامیابی کے امکانات سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور اگر ایسا ہوا تو ہم ایک پھر اسی جگہ پر آجائیں گے جہاں پر پہلے تھے، بلکہ اس سے بھی پیچھے چلے جائیں گے کیونکہ تب تک طاقتور اور بدعنوان عناصر پاکستان کے کمزور عدالتی نظام کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی صلاحیتوں کی خوب مشق بھی کرچکے ہوں گے۔
پھر تب تک تبدیلی کی امید دلانے والے ایماندار اور کرشماتی لیڈر کو آزمایا جاچکا ہوگا اور وہ ناکام رہا ہوگا، اور غریبوں کا مستقبل تاریک اور امیروں کا روشن ہوگا۔ بدقسمتی سے ہمیں یہی منظرنامہ مستقبل میں بنتا ہوا دکھائی دے رہا ہے لیکن ہاں اگر حکومت چاہے تو وہ کرپشن کے خلاف جنگ کے علاوہ دیگر جگہوں پر دھیان دیتے ہوئے منظرنامے کو بدل سکتی ہے۔
اگرچہ گزشتہ 30 برسوں سے اقتدار میں آنے والی ہر حکومت ہمیں اقتصادی کامیابی کی کہانیاں تو بیجتی آرہی ہیں، لیکن ان کی زبردست ناکامیوں کا حقیقی اندازہ بنگلہ دیش کی کامیابیوں سے ہوجاتا ہے۔ وہی بنگلہ دیش جو کبھی پاکستان کا محض ایک حصہ تھا وہ آج تمام شعبوں میں ہم پر غیر معمولی سبقت حاصل کرچکا ہے۔
ہم سے جب یہ ملک الگ ہوا تھا تب ہماری آبادی کے مقابلے میں وہاں آبادی زیادہ تھی لیکن آج ان کی آبادی کم و بیش 16 کروڑ 50 لاکھ ہے جبکہ ہماری آبادی 20 کروڑ 80 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم پر مزید 4 کروڑ 30 لاکھ افراد یعنی ایک اچھے خاصے بڑے ملک کی آبادی کے مساوی آبادی کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کا بوجھ ہے۔
عالمی بینک کے مطابق ان کی شرح خواندگی 74 فیصد جبکہ ہماری 59 فیصد ہے۔ سرسری اندازہ لگایا جائے تو بنگلہ دیش کے مقابلے میں ہمارے ہاں ناخواندہ لوگوں کی تعداد دگنی ہے۔ اب ذرا خود ہی سوچیے کہ اس قدر بھاری ناخواندگی نظام پر کتنا بوجھ بنتی ہوگی۔
آج بنگلہ دیش کو دنیا کی تیزی سے ترقی کرتی معیشتوں میں سے ایک تصور کیا جاتا ہے۔ گزشتہ 15 برسوں سے ان کی شرح پیداوار 5 فیصد سے زائد رہی ہے جبکہ توقع کی جا رہی ہے کہ رواں برس یہ شرح 7 فیصد سے تجاوز کرچکی ہوگی۔
دوسری طرف ہماری شرح پیداوار 3 فیصد کے آس پاس ہی بھٹک رہی ہے۔ 2018ء میں بنگلہ دیش کی فی کس آمدنی ایک ہزار 750 ڈالر جبکہ ہمارے ہاں ایک ہزار 580 ڈالر تھی۔
آئی ٹی سی کے ٹریڈ میپ کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق 2018ء میں بنگلہ دیش کی برآمدات کا حجم 45 ارب ڈالر جبکہ ہماری برآمدات کا حجم محض 24 ارب ڈالر رہا۔ بنگلہ دیش بھارت کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دوسرا سب سے بڑا گارمینٹ برآمد کار بن چکا ہے، جبکہ اس میدان میں ہم دُور دُور تک نظر نہیں آتے، اس کے باوجود کہ ہم اپنی کپاس خود اگاتے ہیں اور ہمیں اونی کپڑے کی کوئی کمی نہیں، جبکہ بنگلہ دیش کپاس کو درآمد کرتا ہے۔
بنگلہ دیش یادِ ماضی میں گم ہوکر اپنا وقت اور توانائی ضائع نہیں کر رہا بلکہ اس ملک نے خود کو 100 خصوصی اقتصادی زونز کی تعمیر کا ہدف دیا ہوا ہے، جن میں سے 11 مکمل اور 79 زیرِ تعمیر ہیں۔
تمام زاویوں سے جائزہ لیا جائے تو ان کی اس اقتصادی کامیابی کی وجہ یہ نہیں کہ وہ اپنی فوج پر زیادہ پیسے خرچ نہیں کرتے ہیں، جیسا کہ ہمارے چند دانشور ہمیں بتاتے ہیں، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے چھوٹے قرضوں پر مبنی منصوبوں کے ذریعے اپنی خواتین کو خودمختار بنانے پر دھیان دیا اور تعلیم پر توجہ مرکوز رکھی۔
بنگلہ دیش میں تیار گارمینٹ کی تقریباً 5 ہزار صنعتیں اس کی جی ڈی پی میں مرکزی کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ شعبہ لاکھوں کی تعداد میں ورکرز کو روزگار مہیہ کرتا ہے، جن میں سے 80 فیصد ورکرز خواتین ہوتی ہیں۔
اگرچہ خواتین کو مردوں کے مقابلے میں کم آمدنی لینے پر مجبور کیے جانے کا استحصالی مسئلہ اپنی جگہ موجود ہے لیکن افرادی قوت میں خواتین کی زیادہ سے زیادہ شمولیت کے غیر ارادی نتائج برآمد ہوئے ہیں، اور وہ اس طرح کہ کم عمری کی شادیوں کا رجحان دم توڑتا جارہا ہے جس کی وجہ سے خاندانی منصوبہ بندی میں خواتین کی مرضی کو زیادہ اہمیت حاصل ہوجاتی ہے۔
تو اس پوری بات سے عمران خان کون سا سبق حاصل کرسکتے ہیں؟ ہمارے ملک کی 72 سالہ تاریخ میں جتنے بھی حکمران اقتدار میں آئے ان میں سے ہر کسی نے دانستہ یا نادانستہ طور پر اپنے پیچھے ایک لیگیسی چھوڑی لیکن اب تک ان میں سے کوئی بھی لیگیسی گیم چینجر ثابت نہیں ہوا ہے۔
ایوب خان نے ہمیں اپنے صنعتی اور زرعی انقلاب سے ہم کنار کروایا، ذوالفقار علی بھٹو نے غربا کو اپنے حقوق کی آگاہی دی، ضیاالحق نے ہمیں مدرسہ کلچر بخشا، بے نظیر بھٹو کی بعد از مرگ لیگیسی نے بی آئی ایس پی (بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام) دیا (اس کے علاوہ مجھے ان کی کوئی دوسری لیگیسی نظر نہیں آتی) جبکہ نواز شریف نے ہمیں موٹروے اور انفرااسٹرکچر کے منصوبوں سے نوازا۔
لہٰذا عمران خان کو چاہیے کہ وہ روایت کو برقرار رکھتے ہوئے کسی ایک خاص شعبے کی نشاندہی کریں اور اسے اپنی ترجیحات میں شامل کریں، ورنہ ان کے حصے میں صرف اور صرف یہ اعزاز ہوگا کہ ان کی حکومت نے اپنی مدت پوری کی اور کوئی کارنامہ سرانجام نہیں دیا۔
اگرچہ پی ٹی آئی کی جانب سے مختلف شعبہ جات میں متعارف کروائے گئے متعدد منصوبے (جنگل کاری، احساس، یکساں نصاب، وغیرہ) پر کام تو اپنی جگہ جاری رکھا جاسکتا ہے لیکن اگر وزیرِاعظم ملک کی تقدیر بدل دینے والا کوئی کارنامہ انجام دینا چاہتے ہیں تو اس کے لیے انہیں تعلیم (بالخصوص لڑکیوں کی تعلیم) کو فروغ دینے اور خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھاتے ہوئے پاکستان کے دیہی علاقوں میں انقلاب لانا ہوگا۔
اگر پاکستان خواتین کو بااختیار بنانا چاہتا ہے تو اسے بنگلہ دیش کے نقشِ قدم پر چلنا ہوگا۔ جہاں تک تعلیم کا تعلق ہے تو اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے یہ لازم ہے کہ وزیرِاعظم سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کی یونین کے معاملے کو جلد از جلد نمٹائیں۔ ان اساتذہ کو مقامی سیاسی آقاؤں سے رہائی دلوانی پڑے گی اور ان سے کام لینا ہوگا۔
یہی وہ 5 لاکھ سرکاری اساتذہ ہیں جن کے ہاتھوں میں ملک کا مستقبل ہے اور اگر عمران خان ان سے کام لینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یوں وہ اس ملک کو ترقی کی ناقابلِ تسخیر بلندیوں تک پہنچانے کی راہ ہموار کرلیں گے اور سابقہ حکمرانوں کے مقابلے میں اپنے پیچھے بے مثال لیگیسی چھوڑ جائیں گے۔
یہ مضمون 22 نومبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
تبصرے (2) بند ہیں