ڈان کے ایڈیٹر ظفر عباس کو پریس فریڈم ایوارڈ سے نواز دیا گیا
کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) نے ڈان کے ایڈیٹر ظفر عباس کی 'آزادی صحافت کے لیے غیرمعمولی اور مسلسل کامیابیوں' کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں گوین ایفل پریس فریڈم ایوارڈ 2019 سے نواز دیا۔
نیویارک میں منعقدہ تقریب میں امریکی صحافی لیسٹیر ہولٹ نے ظفر عباس کو گوین ایفل پریس فریڈم ایوارڈ 2019 سے نوازا۔
اس موقع پر لیسٹیر ہولٹ نے کہا کہ 'ظفر عباس سے زیادہ کوئی اس اعزاز کا اہل نہیں ہوسکتا'۔
مزید پڑھیں: ایڈیٹر ڈان ظفر عباس کیلئے پریس فریڈم ایوارڈ
دوسری جانب تقریب سے خطاب میں ظفر عباس نے بطورِ صحافی اپنے ذاتی سفر، خود کو اور ڈان کو درپیش چیلنجز سے متعلق تفصیلی طور پر آگاہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ 'میں نے سچ بتانے کی کوشش میں تقریبا 40 برس گزارے ہیں، صحافت ہتھیار ڈالنا نہیں، سچ رپورٹ کرنے کا نام ہے'۔
سی پی جے کے مطابق گوین ایفل پریس فریڈم ایوارڈ اس سے قبل برٹن بنجمانی میموریل ایوارڈ کے نام سے جانا جاتا تھا، تاہم 2017 میں ایوارڈ کو 2016 میں انتقال کرجانے والے معروف صحافی اور بورڈ کے سابق رکن گوین ایفل سے منسوب کردیا گیا۔
پریس فریڈم ایوارڈ حاصل کرنے والے چند مشہور ناموں میں گارجین کے سابق ایڈیٹر ان چیف ایلن رسبرڈجر، ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی کیتھی گینن اور سی این این کی کرسٹیانا امان پور شامل ہیں، جنہیں بالترتیب 2012، 2015 اور 2016 میں ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔
خیال رہے کہ رواں برس جولائی میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نے ایڈیٹر ڈان کو گوین ایفل پریس فریڈم ایوارڈ 2019 سے نوازنے کا اعلان کیا تھا۔
سی پی جے کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان میں صحافی اور میڈیا کو غیرمعمولی دباؤ کا سامنا ہے، ظفر عباس صحافیوں کی سلامتی کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کے بھرپور حامی رہے ہیں۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ ظفر عباس کو 2015 میں ایڈیٹرز فار سیفٹی کا چیئرمین منتخب کیا گیا تھا جو خطرات کا سامنا کرنے والے صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے والے ایڈیٹرز کی ایک تنظیم ہے۔
سی پی جے کی سربراہ کیتھلن کیرول کا کہنا تھا کہ ‘ظفر عباس صحافتی حوصلے کی عملی تصویر ہیں، اسی لیے بورڈ انہیں گوین ایفل پریس فریڈم ایوارڈ سے نوازنے پر پُرمسرت ہے’۔
انہوں نے کہا تھا کہ ‘ہر روز وہ ڈان کے قارئین تک حقائق پہنچانے کے لیے اداروں کی جانب سے پڑنے والے دباؤ، روڑے اٹکانا اور رکاوٹوں سے لڑتے ہیں، جو اپنے کام کو پریس یا عوام کی اسکروٹنی کے بغیر چلانے کو ترجیح دیتے ہیں’۔
واضح رہے کہ ظفر عباس نے اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز 1981 میں کراچی کے ایک اخبار دی اسٹار سے جونیئر رپورٹر کے طور پر کیا اور 2010 میں ڈان کے ایڈیٹر نامزد ہوئے۔
انہوں نے 1988 میں ہیرالڈ میگزین میں تفتیشی (انوسٹی گیٹو) صحافی کے طور پر شمولیت اختیار کی اور 1992 میں برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) میں پاکستان کے نمائندہ کی حیثیت سے شامل ہوئے۔
2006 میں وہ ڈان کا حصہ بنے اور افغانستان میں سویت دور میں بغاوت، خانہ جنگی، نائن الیون کے بعد پیش آنے والے واقعات اور مذہبی انتہاپسندی سمیت خطے پر پڑنے والے ان کے اثرات کو کور کیا۔
ظفر عباس کو صحافتی کیریئر میں ایک سے زائد مرتبہ جسمانی تشدد اور دھمکیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا، ان پر اور ان کے بھائی پر 1991 میں مسلح افراد نے اس وقت حملہ کیا جب وہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی سرگرمیوں کو رپورٹ کرتے تھے۔
بعد ازاں وہ جب بی بی سی کے لیے کام کر رہے تھے تو اسلام آباد میں ان کے دفتر کو انتہاپسندوں نے آگ لگائی اور ظفر عباس سمیت ان کے ساتھیوں پر براہ راست حملہ کیا گیا، یہ حملہ ملک میں فرقہ پرستانہ ہلاکتوں سے متعلق ایک ویڈیو بی بی سی میں نشر ہونے کا ردعمل تھا۔
حالیہ برسوں میں ڈان دباؤ کے زیر اثر رہا اور اس کی اشاعت میں 2016 میں سول اور عسکری قیادت کے درمیان تعلقات کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کرنے کے بعد کئی شہروں میں متعدد مواقع پر خلل ڈالا گیا۔
سی پی جے کے بیان کے مطابق ظفر عباس کا کہنا تھا کہ انہیں اور خبر دینے والے رپورٹر سے خفیہ ایجنسیوں کے عہدیداروں کی جانب سے کئی گھنٹوں تک تفتیش کی گئی لیکن انہوں نے خبر کے ذرائع بتانے سے انکار کیا۔
سی پی جے نے ظفر عباس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ‘یہاں تک کہ سیاست اور سنجیدہ تنازعات پر بحث کرنا بھی ریڈ لائن ہوسکتی ہے’۔