پاریش راول کی ’سنسکرت‘ کے مسلمان پروفیسر کی حمایت
بھارتی ریاست اترپردیش کے مقدس شہر مانے جانے والے وارانسی میں موجود ’بنارس ہندو یونیورسٹی‘ ( بی ایچ یو) میں ایک مسلمان شخص کو پروفیسر تعینات کرنے پر ہندو انتہاپسند طلبہ نے مظاہرے شروع کردیے۔
بی ایچ یو انتظامیہ نے ’سنسکرت‘ میں پی ایچ ڈی کرنے والے مسلمان فیروز خان کو یونیورسٹی میں بطور پروفیسر تعینات کیا تھا، جس پر ہندو طلبہ نے مظاہرے شروع کیے۔
انڈیا ٹوڈے کے مطابق مظاہرے کرنے والے ہندو طلبہ ایک مسلمان شخص کو ’سنسکرت‘ کا پروفیسر ماننے کو تیار نہیں، ان کا ماننا ہے کہ اس مضمون کا استاد صرف ہندو مذہب کے ماننے والا ہوسکتا ہے۔
بنارس ہندو یونیورسٹی کے طلبہ کی جانب سے شروع کیے جانے والے مظاہرے نے سوشل میڈیا پر بھی دھوم مچادی اور باقی ہندو انتہاپسند بھی مسلمان پروفیسر کے خلاف میدان میں آگئے۔
ہندو انتہاپسند افراد اور طلبہ کی جانب سے مسلمان پروفیسر پر سخت تنقید کیے جانے کے بعد بولی وڈ فلموں میں برے کردار ادا کرنے والے پاریش روال فیروز خان کی حمایت میں آگئے۔
پاریش راول نے مسلمان پروفیسر کے خلاف جاری مظاہروں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر ان کو گھٹیا قرار دیا اور کہا کہ وہ فیروز خان کو ’سنسکرت‘ میں پی ایچ ڈی کرنے پر سلام پیش کرتے ہیں۔
پاریش راول نے اپنی سلسلہ وار ٹوئٹس میں مسلمان پروفیسر فیروز خان کے خلاف مظاہرے کرنے والے افراد کو کہا کہ ’سنسکرت‘ زبان کو مذہب سے نہ جوڑا جائے، فیروز خان کو مکمل حق حاصل ہے کہ وہ اس زبان سمیت کسی بھی زبان میں تعلیم حاصل کرے۔
ساتھ ہی اداکار نے مسلمان پروفیسر کی جانب سے ’سنسکرت‘ میں پی ایچ ڈی کیے جانے پر ان کی تعریف کی۔
انہوں نے ایک اور ٹوئٹ میں مزید وضاحت کی اور لکھا کہ اگر زبان کو مذہب سے جوڑا جائے گا تو پھر بھارت کے شہرہ آفاق مسلمان گلوکار محمد رفیع ہندو بھجن نہیں گا سکیں اور معروف موسیقار نوشاد صاحب بھجن کی موسیقی ترتیب نہیں دے سکیں گے‘۔
حیرانگی کی بات یہ ہے کہ جہاں ہندو طلبہ مسلمان شخص کے ’سنسکرت‘ کے پروفیسر بننے پر احتجاج پذیر ہیں، وہیں یہی طلبہ مسلمان اداکاروں کی جانب سے فلموں میں ہندو شخص کے کردار نبھانے پر خوش دکھائی دیتے ہیں۔
مسلمان شخص کی تعیناتی کے خلاف احتجاج کرنے والے انتہاپسند طلبہ کے مظاہروں کے بعد بنارس ہندو یونیورسٹی انتطامیہ نے بیان جاری کیا تھا وہ تمام مذاہب،فرقے اور نسل سے تعلق رکھنے والے افراد کو یکساں مواقع فراہم کرنے پر یقین رکھتی ہے۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق اگرچہ یونیورسٹی انتطامیہ نے تمام فرقوں اور مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو یکساں مواقع فراہم کرنے کا بیان دیتے ہوئے مظاہرین کے مطالبات کو مسترد کردیا تھا، تاہم جس دن سے فیروز خان کو پروفیسر تعینات کیا گیا ہے تب سے انہیں یونیورسٹی میں نہیں دیکھا گیا۔
رپورٹ کے مطابق فیروز خان کی تعیناتی کے فوری بعد ان کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے تھے اور انہوں نے اب تک ایک بھی کلاس نہیں لی اور نہ ہی انہیں یونیورسٹی میں دیکھا گیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ فیروز خان کا موبائل نمبر پر بھی بند ہے اور ان سے تمام کوششوں کے باوجود رابطہ نہیں کیا جاسکا۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ فیروز خان کی طرح ان کے والد نے بھی سنسکرت پڑھ رکھی ہے اور ان کا خاندان مندروں میں بھجن گانے سمیت خصوصی ہندو مذہبی دنوں کے موقع پر عبادات کا بھی اہتمام کرتا ہے۔