دنیا کا پراسرار ترین 'ابلتے پانی' والا دریا
صدیوں تک لاطینی امریکی ملک پیرو کے مقامی افراد ایک ایسے دریا کا ذکر کرتے رہے جس کا پانی اتنا گرم ہوتا ہے کہ کسی کی ہلاکت کا باعث بن سکتا ہے۔
روایات کے مطابق ہسپانوی فاتحین سونے کی تلاش میں برساتی جنگل میں پہنچے اور چند افراد ہی واپس آسکے جو زہریلے پانی، انسان نگل لینے والے سانپوں اور ابلنے والا دریا کی کہانیاں سناتے تھے۔
پیرو سے ہی تعلق رکھنے والے ارضیاتی سائنسدان اینڈریس روزو کو ان کہانیوں نے بچپن سے مسحور کررکھا تھا مگر وہاں جانے کا موقع انہیں اپنے پی ایچ ڈی مقالے تک نہیں مل سکا جو وہ پیرو میں جیو تھرمل انرجی کے مواقعوں پر لکھ رہے تھے۔
اس کی تلاش میں جن ماہرین سے انہوں نے بات کی تو وہ متفقہ طور پر کہتے تھے کہ ایسا گرم پانی والا دریا یہاں موجود ہی نہیں ہوسکتا کیونکہ ایسے دریا ان جگہوں پر ہوتے ہیں جہاں آتش فشاں موجود ہوں اور اس ملک میں تو کوئی آتش فشاں ہی نہیں۔
مگر جب وہ تعطیلات میں اپنے آبائی علاقے گئے جہاں سے یہ داستانیں سامنے آئی تھیں اور خاندان سے پوچھا تو ان کی والدہ نے بتایا کہ یہ دریا نہ صرف موجود ہے بلکہ وہ اور ان کی خالہ وہاں جا بھی چکے ہیں۔
2011 میں انہیں ایمیزون کے برساتی جنگل اپنی خالہ کے ساتھ جانے کا موقع ملا اور اس مشہور دریا کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور یہ جان کر دنگ رہے گئے کہ وہ بہت زیادہ گرم ہے۔
2014 میں ٹیڈ ٹاک میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا 'جب میں نے اسے دیکھا، میں نے فوری طور پر تھرمامیٹر نکالا، اس دریا کے پانی کا اوسط درجہ حرارت 86 ڈگری سینٹی گریڈ تھا، جو مکمل طور پر ابل تو نہیں رہا تھا مگر اس کے قریب ضرور تھا، یہ کوئی افسانوی دریا نہیں'۔
اس کے کنارے پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ کسی حمام میں ہے جہاں بھاپ سے گرمائش کا کام لیا جاتا ہے۔
اس کا سب سے غیرمعمولی پہلو اس کا حجم ہے کیونکہ گرم چشمے دنیا کے مختلف مققامات پر موجود ہیں اور دنیا کے مختلف حصوں میں بھی اتنے درجہ حرارت والے پانیوں کے ذخائر دیکھے جاسکتے ہیں، مگر کوئی بھی اس دریا کے برابر نہیں، جو کہ 25 میٹر چوڑا اور 6 میٹر گہرا ہے، جبکہ اس کا گرم پانی 6.24 کلومیٹر تک بہتا ہے۔
اور یہ بھی ذہن میں رہے کہ اس دریا کے قریب کوئی آتش فشاں نہیں، بلکہ قریبی آتش فشانی سلسلہ 700 کلومیٹر دور ہے اور یہی وجہ ہے کہ دریا کے پانی کا درجہ حرارت اتنا زیادہ ہونے ناقابل فہم ہے۔
درحقیقت یہ دنیا میں اپنی طرز کا واحد دریا ہے یا کم از کم ایسا کوئی اور دریا اب تک دریافت نہیں ہوا۔
مقامی افراد کی اجازت سے اینڈریس روزو نے حالیہ برسوں میں اس دریا ، ارگرد کے ماحول پر تحقیق کی جبکہ پانی کا تجزیہ لیبارٹری میں کیا، تاکہ جان سکیں کہ اتنے درجہ حرارت کی وجہ کیا ہے۔
یہ تو واضح ہے کہ اینڈریس روزو اس دریا کو دریافت کرنے والے پہلے شخص نہیں کیونکہ اس مقامی طور پر Shanay-timpishka کہا جاتا ہے جس کا مطلب سورج کی حرارت سے ابلنے والا ہے اور وہ پہلے فرد نہیں جو اس کے اتنے گرم ہونے پر حیران ہوں۔
مگر نیشنل جیوگرافک کے تعاون سے ان کی تحقیق میں اس دریا کے چند رازوں کو دریافت کرنے میں مدد ملی اور یہ واضح ہوا کہ سورج پانی کو نہیں ابالتا بلکہ وجہ کچھ اور ہے۔
اگر آپ زمین کو انسانی جسم سمجھ لیں اور اس کے اندر فالٹ لائنز اور دراڑوں کو شریانیں، تو یہ زمینی شریانیں گرم پانی سے بھری ہوتی ہیں اور جب وہ سطح پر آتا ہے تو ایسا منظر نظر آتا ہے جیسے اس ابلتے ہوئے دریا کے کنارے دیکھا جاسکتا ہے۔
کیمیائی تجزیے سے انکشاف ہوا کہ دریا کا پانی بنیادی طور پر بارش کا پانی تھا اور محقق کے خیال میں بارش کا پانی جب زمین کے نیچے گیا تو زمینی توانائی سے گرم ہوگیا اور بتدریج اس دریا کو ابالنے کا باعث بن گیا۔
ان کے خیال میں یہ دریائی نظام ایک بہت بڑے ہائیڈروتھرمل سسٹم کا حصہ ہے جو کہ اس سیارے میں کسی اور جگہ نظر نہیں آتا۔
مزید حیران کن بات یہ ہے کہ سائنسدان نے ماہرین حیاتیات اسپنسر ویلس اور جوناتھن ایسٹن کے ساتھ مل کر ایسے ننھے جرثوموں کے جنیوم تلاش کیے ہیں جو اس دریا اور اس کے ارگرد رہتے ہیں۔
یہ دریا جتنا مسحورکن ہے، اتنا ہی جان لیوا بھی، کیونکہ یہ پانی اتنا گرم ہے کہ اینڈریس روزو اکثر یہاں جانوروں کو گرفت اور آہستگی سے ابل کر مرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔
ان کے بقول سب سے پہلے جانوروں کے تیرنے کی صلاحیت ختم ہوتی ہے اور پانی ان کے منہ اور پھیپھڑوں میں بھر جاتا ہے جس سے سانس رک جاتی ہے، مگر لوگ بھی اس دریا میں تیرتے ہیں، مگر ایسا اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب بہت زیادہ بارش ہو اور ٹھنڈا پانی اوپر سے گر رہا ہو۔
ورنہ اکثر اس دریا کے پانی کو چائے بنانے، انڈا ابالنے یا کھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
اینڈریس روزو کی جانب سے دریا پر تحقیق کا سلسلہ جاری ہے تاہم ان کی اصل توجہ دریا اور ارگرد کے تحفظ پر مرکوز ہے۔
انہوں نے اس پر دی بوائلنگ ریور نامی کتاب بھی اس توقع کے ساتھ جاری کی کہ اس منفرد نظام کے بارے میں خبر پھیل سکے، تاکہ لوگ اس کے تحفظ کے لیے آسکیں کیونکہ یہ تنہا فرد کا کام نہیں۔