• KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm
  • KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm

صدارتی ریفرنس کے خلاف سماعت: ‘جسٹس فائز عیسیٰ نے بطور وکیل بھی ٹیکس ادا کیا‘

شائع November 19, 2019
سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو 2 ریفرنسز میں شوکاز نوٹس جاری کیے تھے — فوٹو: عدالت عظمیٰ ویب سائٹ
سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو 2 ریفرنسز میں شوکاز نوٹس جاری کیے تھے — فوٹو: عدالت عظمیٰ ویب سائٹ

سپریم کورٹ آف پاکستان میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی قانونی ٹیم کے رکن ایڈووکیٹ بابر ستار نے کہا ہے کہ ان کے موکل بطور وکیل بھی ٹیکس ادا کرتے تھے۔

عدالت عظمیٰ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ و دیگر کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے خلاف دائر درخواستوں پر جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی، اس دوران جسٹس عیسیٰ کی قانونی ٹیم کے رکن ایڈووکیٹ بابر ستار نے دلائل دیے۔

مزیدپڑھیں: سپریم کورٹ: 'جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ نے وزیراعظم سے زیادہ ٹیکس دیا'

واضح رہے کہ گزشتہ روز سماعت میں بابر ستار نے کہا تھا کہ جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے وزیراعظم عمران خان سے زیادہ ٹیکس دیا۔

تاہم آج وکیل نے دلائل کے آغاز میں بتایا کہ اگر ان کے موکل کا لندن فلیٹس چھپانا مقصد ہوتا تو وہ آف شور کمپنی بنا لیتے، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ جسٹس فائز عیسیٰ پر بطور جج کرپشن کا کوئی الزام نہیں۔

اسی پر جسٹس عیسیٰ کے وکیل نے کہا کہ ایسا کوئی مواد نہیں کہ لندن اثاثے جسٹس فائز عیسیٰ کی ملکیت ہیں، اس پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ کیا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بچوں کے پاسپورٹ سرکاری ہیں؟، جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ دونوں بچوں کے پاس اسپینش (ہسپانوی) پاسپورٹ ہیں۔

علاوہ ازیں بابر ستار نے بتایا کہ سرکاری دستاویزات کے مطابق لندن فلیٹ جسٹس فائز عیسی کی اہلیہ کے زیر استعمال ہیں، جس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ جسٹس فائز عیسیٰ نے اہلیہ اور بچوں کو کوئی تحفہ نہیں دیا کیونکہ جو دلائل آپ دے رہے ہیں وہ تحفہ دینے سے متعلق ہیں، جب تحفہ دیا ہی نہیں تو اس نکتے پر دلائل کا ہم کیا کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس عیسیٰ نے ٹیکس قوانین کی شق 116 کی خلاف ورزی نہیں کی، وکیل

دوران سماعت وکیل بابر ستار نے پاناما کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاناما فیصلے کے مطابق مریم نواز اپنے والد نواز شریف کے زیر کفالت نہیں اور زیرکفالت نہ ہونے پر سابق وزیراعظم اپنی صاحبزادی مریم نواز کے اثاثے ظاہر کرنے کے پابند نہیں تھے۔

انہوں نے کہا کہ جسٹس فائز عیسیٰ آرٹیکل 209 کے تحت تحفظ نہیں مانگ رہے بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ ٹیکس حکام الزامات کی انکوائری کریں، اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 209 صرف تحفظ نہیں بلکہ استحقاق بھی ہے۔

سماعت کے دوران ہی وزیر اعظم عمران خان کے بیان کا تذکرہ بھی آیا، جس پر وکیل بابر ستار نے کہا کہ وزیر اعظم عمران نے کل چیف جسٹس اور مستقبل کے چیف جسٹس کو مخاطب کرکے امیر اور غریب کے لیے الگ الگ قانون کی بات کی۔

اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ سیاسی بیانات کے لیے یہ فورم استعمال نہ کریں کوئی بھی ادارہ مکمل پرفیکٹ نہیں ہے اور ہر ادارے میں بہتری کی گنجائش ہوتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کیس پر بینچ کی تشکیل کا معاملہ چیف جسٹس کو نہ بھیجنے کا فیصلہ

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ ماتحت عدلیہ کے ایک جج کی وجہ سے پوری عدلیہ کو شرمندگی اٹھانا پڑی، اس لیے اس روسٹرم پر وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کے بارے میں بات نہ کریں۔

وکیل بابر ستار نے کہا کہ میں سیاسی بات نہیں کر رہا، عمومی طور پر عدالتی فیصلے سے ایک فریق خوش اور ایک ناخوش واپس جاتا ہے۔

سماعت کے دوران بابر ستار نے کہا کہ اثاثے چھپانے کا سوال تب پیدا ہو گا جب ظاہر کرنا لازم ہو، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ پر تو اثاثے ظاہر کرنا لازم تھا'۔

عدالتی ریمارکس پر وکیل بابر ستار نے کہا کہ اگر ٹیکس اتھارٹی مطمئن نہیں تھی تو 25 ہزار جرمانہ کر سکتی تھی، جج کا احتساب اہلیہ یا بچوں کے اقدامات پر نہیں ہو سکتا۔

اس پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ اگر جج کے بچے اور اہلیہ فائدے سے مستفید ہورہے ہوں تو کیا پھر بھی ان کے اقدامات پر احتساب نہیں ہوسکتا۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس قاضی فائز کی آئینی درخواست کی سماعت کیلئے فل کورٹ کی استدعا

ساتھ ہی جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ جج کی بیٹی شادی ہونے کے بعد میڈیکل کی سہولیات بھی نہیں لے سکتی اور بیٹے کی عمر اگر 25 سال ہو تو وہ بھی والد کے عہدے کے فوائد نہیں لے سکتا۔

اس پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ اگر جائیداد کا تعلق جج سے ثابت ہو جائے تو پھر زیر کفالت ہونے یا نہ ہونے کا سوال نہیں رہتا، اسی دوران جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اگر جج خود بھی مہنگی گاڑی چلائے تو بھی کرپٹ نہیں کہا جا سکتا۔

ججز کے ریمارکس پر وکیل بابر ستار نے کہا کہ جج بھی شہری ہے، روزمرہ زندگی کے معمولات میں مسائل ہو سکتے ہیں، اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ سپریم جوڈیشل کونسل ربر اسٹیمپ نہیں اور ججز کے خلاف دائر شکایات کونسل ختم کرتی ہے جبکہ ججز کو علم بھی نہیں ہوتا۔

انہوں نے مزید استفسار کیا کہ کیا وجہ ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کونسل کارروائی سے بچ رہے ہیں؟، اس پر بابر ستار نے کہا کہ یہ کیس ریفرنس دائر کرنے سے متعلق صدر کے اختیار کا ہے، سوال یہ ہے کہ ایگزیکٹو، جج کو نوٹس جاری کر سکتے ہیں یا نہیں۔

اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ اگر کوئی جج سے اعلی معیار چاہے تو یہ اچھی بات ہے جبکہ اس کیس میں بھی جج اور ان کی اہلیہ سے متعلق بات کی گئی ہے۔

مزیدپڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر ایک ریفرنس خارج

جسٹس عمر عطا کے ریمارکس پر بابر ستار نے کہا کہ ریفرنس میں کوڈ آف کنڈکٹ (ضابطہ اخلاق) کی خلاف ورزی کا نہیں کہا اور سوال یہ بھی ہے کہ کیا پرانے عہدے پر مس کنڈکٹ موجودہ عہدہ سے ہٹانے کیلئے استعمال ہو سکتا ہے؟

انہوں نے مزید کہا کہ میرا موقف ہے صدر کو ریفرنس بھیجنے سے پہلے شواہد کا جائزہ لینا چاہیے تھا، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ صدر مملکت کے سامنے مواد شک و شبہ سے بالاتر ہو تو کونسل کو بھیجنے کی کیا ضرورت ہے۔

جس پر بابر ستار نے کہا کہ صدر مملکت کا کسی جج کے خلاف ریفرنس بھیجا بڑا سنجیدہ مسئلہ ہے۔

بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت اگلے ہفتے تک ملتوی کردی۔

کارٹون

کارٹون : 26 نومبر 2024
کارٹون : 25 نومبر 2024