’بھارتی مظالم مقبوضہ کشمیر میں عسکریت پسندی کو ہوا دے رہے ہیں‘
واشنگٹن: امریکا سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو ) نے کہا ہے کہ بھارتی حکومت کے مکروہ حربوں اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی سے مقبوضہ کشمیر میں عسکری تنظیموں کے لیے ’حمایت اور بھرتیوں‘ میں اضافہ ہوا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق امریکی کانگریس کو دیے گئے ایک تحریری بیان میں ایچ آر ڈبلیو نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ بھارت نے کشمیریوں کے احتجاج کے خلاف ’ضرورت سے زیادہ طاقت‘ کا استعمال کیا۔
ایچ آر ڈبلیو ایشیا کے ڈائریکٹر جان سفٹن نے کہا کہ ’حکومت کشمیر کے حوالے سے تمام مسائل کا ذمہ دار ماضی کے محرکات اور بیرونی عناصر یعنی سرحد پار عسکری گروہ اور پاکستانی حمایت کو قرار دیتی ہے جبکہ حکومت کے پرتشدد حربوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے جس کے باعث گزشتہ ایک دہائی کے دوران عسکری گروہ کی بھرتیوں اور حمایت میں اضافہ ہوا‘۔
تحریری بیان میں کہا گیا کہ مقبوضہ کشمیر میں حالیہ برسوں میں عسکری حملوں، پرتشدد احتجاج میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر: امریکا کا گرفتار افراد کو رہا، حقوق بحال کرنے کا مطالبہ
رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارتی سیکیورٹی فورسز عموماً ان احتجاج کے جواب میں ضرورت سے زیادہ طاقت کا استعمال کرتی ہیں جس میں پیلٹ گنز اور ہجوم کو کنٹرول کرنے والے ہتھیار شامل ہیں، جس کے باعث متعدد مظاہرین کی اموات ہوئیں جبکہ کئی افراد شدید زخمی ہوئے۔
مذکورہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ ’بھارتی فورسز کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر شاذ و نادر ہی کوئی کارروائی کی جاتی ہے‘۔
بیان میں کہا گیا کہ بھارتی مسلح فورسز اسپیشل پاور ایکٹ، بھارتی اہلکاروں کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر کسی قانونی کارروائی سے موثر استثنیٰ فراہم کرتا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں جب سے یہ قانون نافذ ہوا ہے بھارتی حکومت نے اہلکاروں کے خلاف کوئی مقدمہ سویلین کورٹ میں چلانے کی اجازت نہیں دی۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ بھارتی حکومت نے متعدد مرتبہ موبائل فون اور براڈ بینڈ سروسز کو معطل کر کے مقبوضہ کشمیر میں انٹرنیٹ پر قدغن عائد کی اور صرف 2019 میں انٹرنیٹ بندش کے 55 واقعات ہوئے جو ملک میں سب سے زیادہ ہیں۔
مزید پڑھیں: امریکا کا مقبوضہ کشمیر پر عائد پابندیاں نرم کرنے کیلئے بھارت پر دباؤ
ایچ آر ڈبلیو کا کہنا تھا کہ ’بھارت دنیا میں انٹرنیٹ بندش کے اعتبار سے اول نمبر پر ہے اور نومبر تک حکام نے 85 مرتبہ انٹرنیٹ پر قدغن عائد کیں‘۔
رپورٹ میں انسانی حقوق کی تنظیم کا مزید کہنا تھا کہ استحصال کا ایک طویل سلسلہ ہے جسے مقبوضہ جموں کشمیر کے عوام برداشت کر رہے ہیں جبکہ بھارت ان مسائل پر توجہ دینا بھی نہیں چاہتا۔
ایچ آر ڈبلیو نے ان مسائل کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ جب تک بھارتی حکومت انہیں تسلیم کر کے اس بات پر توجہ نہیں دے گی کہ یہ بدسلوکیاں صورتحال پر کس طرح اثر انداز ہورہی ہیں کشمیر میں مسائل موجود رہیں گے۔
بھارت میں انسانی حقوق کی بدترین صورتحال کی تصویر پیش کرتے ہوئے ہیومن رائٹس واچ کا کہنا تھا کہ 2015 میں جب سے بھارتیہ جنتا پارٹی اقتدار میں آئی ہے بھارتی حکام مخالفین کو زیرِ دست کرنے کے لیے بغاوت کے الزامات اور ہتک عزت کے مجرمانہ قوانین کا بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی کانگریس میں ایک مرتبہ پھر مسئلہ کشمیر موضوعِ بحث
بیان میں کہا گیا کہ ’صحافیوں کو ان کی رپورٹنگ یا سوشل میڈیا پر تنقیدی تبصرے پر ہراساں کیا جاتا ہے جبکہ کبھی حراست میں بھی لیا جاتا ہے مزید یہ کہ وہ مقبوضہ کشمیر سمیت متعدد معاملات پر سیلف سینسر شپ کے سخت دباؤ کا سامنا کرتے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف بی جے پی سے تعلق رکھنے والے انتہا پسند ہندوؤں کے ہجوم کی اشتعال انگیزی کے واقعات بہت بڑھ گئے ہیں، جس کے تحت 2015 سے اب تک گائے کے معاملے پر 50 افراد کو قتل اور 250 سے زائد کو زخمی کیا گیا۔
مذکورہ رپورٹ میں امریکی کانگریس پر زور دیا گیا کہ کشمیری عوام کی شکایات کا ازالہ کیا جائے، جس کے لیے اراکین کانگریس بھارتی حکام کو یہ پیغام پہنچائیں کہ ان کی کارروائیاں مقبوضہ کشمیر میں انسانی مسائل پیدا کررہی ہیں۔