اس تصویر کے پیچھے چھپی کہانی رونگٹے کھڑے کردے گی
اوپر موجود تصویر دیکھ کر آپ کے ذہن میں کیا خیال آتا ہے؟
اس تصویر کی کہانی انتہائی حیران کن اور رونگٹے کھڑے کردینے والی ہے اور یہ لگ بھگ پاکستان جتنی پرانی ہے بلکہ اس سے بھی چند ماہ پہلے لی گئی تھی یعنی یکم مئی 1947 کو۔
یہ تصویر اس وقت فوٹوگرافی کی تعلیم حاصل کرنے والے طالبعلم رابرٹ وائلس نے لی تھی اور 7 دہائیوں بعد بھی یہ چند معروف ترین تصاویر میں سے ایک ہے۔
تو آپ اس تصویر کے پیچھے چھپی وجہ پکڑنے میں کامیاب ہوئے ؟ ویسے اسے دیکھ کر جاننا بہت مشکل ہے کہ اس تصویر کو اب تک کیوں یاد کیا جاتا ہے۔
چلیں اس تصویر کا عنوان آپ کو حقیقت بتادے گا اور وہ ہے 'دنیا کی سب سے خوبصورت خودکشی یا دی موسٹ بیوٹی فل سوسائیڈ'۔
جی ہاں یہ تصویر خودکشی کرنے والی خاتون کی ہے اور وہ بھی نیویارک کی ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ کی 86 ویں منزل سے چھلانگ لگا کر، مگر حیران کن طور پر اتنی بلندی سے نیچے گرنے پر بھی ایسا نہیں لگتا کہ یہ خاتون مرچکی ہیں یا جسم کو نقصان پہنچا ہے۔
اس تصویر میں موجود خاتون ایویلین میک ہیل جنہوں نے 23 سال کی عمر میں اپنی زندگی ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس خاتون کی زندگی یا آخری گھنٹوں کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں، بس یہ معلوم ہے کہ ان کا تعلق کیلیفورنیا کے علاقے بارکلے سے تھا جو ماں باپ کی علیحدگی کے بعد باپ اور بہن بھائیوں کے ہمراہ نیویارک منتقل ہوئیں۔
وہاں تعلیم حاصل کرنے کے بعد ویمن آرمی کور میں شمولیت اختیار کی اور پھر اسے چھوڑ کر ایک کمپنی میں بک کیپر بن گئیں، مگر خودکشی کیوں کی۔
بس یکم مئی کو یہ خاتون ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ گئی اور 86 ویں منزل پر آبزرویشن ڈیک سے نیچے چھلانگ لگا دی اور اس کے بعد پولیس نے ایویلین کا آخری خط 86 ویں منزل پر ان کے صفائی سے فولڈ کیے گئے کوٹ سے دریافت کیا جس پر لکھا تھا 'میں اب مزید اپنے خاندان کو اپنی زندگی کا حصہ نہیں دیکھنا چاہتی، کیا آپ میرے جسم کو جلا کر ختم کرسکتے ہیں؟ میں آپ سے اور اپنے خاندان سے بھیک مانگتی ہوں کہ میرے مرنے کے بعد آخری رسومات یا مجھے یاد کرنے کی کوشش نہ کریں۔ میرے منگیتر نے مجھ سے جون میں شادی کا کہا، مگر مجھے نہیں لگتا کہ میں کسی کی اچھی بیوی بن سکتی ہوں، وہ میرے بغیر زیادہ اچھی زندگی گزار سکے گا۔ میرے والد کو کہہ دینا کہ میرے اندر میری ماں کی متعدد چیزیں موجود ہیں'۔
ایویلین کی لاش کی شناخت ان کی بہن ہیلن نے کی اور آخری خواہش کے مطابق آخری رسومات کی بجائے لاش کو جلادیا گیا۔
یہ تصویر خاتون کی خودکشی کے 4 منٹ بعد لی گئی اور اسے دنیا کی سب سے خوبصورت خودکشی قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ ایک بار جب اس تصویر کو دیکھتے ہیں تو نظر ہٹانا مشکل ہوتا ہے۔
تصویر میں محسوس ہوتا ہے کہ ایویلین آرام کرتے ہوئے اوپر دیکھ رہی ہے یا قیلولہ کررہی ہے، ایسا لگتا ہی نہیں کہ وہ مری ہوئی حالانکہ وہ ایک گاڑی کے اوپر گری تھی جو بری طرح دب گئی تھی، شیشے ٹوٹے تھے۔
مگر تصویر میں خاتون نے ہاتھ میں موتیوں کا ہار ہار پکڑا ہوا ہے اور جسم ایسے انداز سے پڑا ہوا ہے جیسے آرام کرتے ہوئے یا نیند کے دوران ہوتا ہے۔
جب یہ خاتون نیچے گاڑی سے ٹکرائی تو ایک زوردار دھماکا ہوا جس کو سن کر فوٹوگرافر بھاگا ہوا آیا اور اس تصویر کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرلیا۔
یہ تصویر 12 مئی 1947 کو لائف میگزین میں پکچر آف دی ویک کے طور پر شائع ہوئی اور پھر متعدد جرائد میں اسے شائع کیا گیا جبکہ اب بھی اسے استعمال کیا جاتا ہے جیسے ٹیلر سوئفٹ کے ایک البم میں اسے استعمال کیا گیا۔
یعنی ایویلین کی آخری خواہش مر کر بھی پوری نہیں ہوئی کہ اسے یاد نہ رکھا جائے بلکہ اس کا نام و نشان مٹا دیا جائے۔
تبصرے (2) بند ہیں