خیبر پختونخوا: سماجی رہنما ادریس خٹک صوابی انٹرچینج سے 'اغوا'
معروف سماجی رہنما ادریس خٹک کو خیبر پختونخوا کے علاقے اکوڑہ خٹک سے صوابی جاتے ہوئے انٹرچینج سے مبینہ طور پر اغوا کر لیا گیا۔
پولیس کا کہنا تھا کہ ادریس خٹک کے ڈرائیور شہسوار نے بتایا کہ انہیں نامعلوم افراد نے صوابی انٹرچینج سے مبینہ طور پر اغوا کرلیا۔
انبار پولیس اسٹیشن میں شہسوار نے شکایت درج کرادی جس میں انہوں نے کہا کہ وہ ادریس خٹک کو صوابی کی طرف لے کر جارہے تھے تو تقریباً 4 نامعلوم افراد نے ان کی کار کو صوابی موٹروے انٹرچینج کے کے پاس روکا اور اغوا کرلیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ واقعہ 13 نومبر کو پیش آیا تھا تاہم ڈرائیور شہسوار اور ادریس خٹک کے اہل خانہ کی جانب سے شکایت درج کرادی گئی ہے لیکن فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) تاحال درج نہیں کرائی گئی۔
عہدیداروں نے ادریس خٹک کی گمشدگی کی تصدیق کی اور کہا کہ ایف آئی آر ابتدائی تفتیش کے بعد درج کر لی جائے گی۔
سماجی رہنما جبران ناصر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر دعویٰ کیا کہ ‘ادریس خٹک کو 6 روز قبل خفیہ ایجنسیوں نے اسلام آباد ۔ پشاور ہائی وے کے قریب صوابی انٹرچینج سے اٹھایا تھا، ان کے ساتھ ڈرائیور کو بھی اٹھایا گیا تھا تاہم انہیں 3 روز بعد رہا کردیا گیا’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ادریس خٹک، نیشنل پارٹی کے کارکن ہیں اور ماضی میں ایمنسٹی اور ہیومن رائٹس واچ کے ساتھ کام کرچکے ہیں’۔
جبران ناصر نے نیشنل پارٹی کے سینیٹر میر حاصل بزنجو کے ہمراہ ادریس خٹک کی پرانی تصویر بھی جاری کی۔
ڈرائیور شہسوار کی جانب سے درج شکایت میں جبران ناصر کے دعوے کے حوالے سے کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔
ادھر ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان (ایچ آر سی پی) نے ادریس خٹک کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘ایچ آر سی پی ادریس خٹک کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتا ہے جو اپنے زمانہ طالب علمی سے ترقی پسند سیاست سے منسلک رہے ہیں’۔
ایچ آر سی پی نے ٹویٹ میں کہا کہ ‘ایچ آر سی پی غیر قانونی گرفتاریوں کی مذمت کرتا ہے اور ریاست پاکستان پر زور دیتا ہے کہ وہ شہریوں کے آئینی حقوق کو پورا کرے’۔