سپریم کورٹ: 'جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ نے وزیراعظم سے زیادہ ٹیکس دیا'
سپریم کورٹ آف پاکستان میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی قانونی ٹیم کے رکن ایڈووکیٹ بابر ستار نے کہا ہے کہ ان کے موکل کی اہلیہ نے وزیراعظم عمران خان سے زیادہ ٹیکس دیا۔
عدالت عظمیٰ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ و دیگر کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے خلاف دائر درخواستوں پر جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی، اس دوران جسٹس عیسیٰ کی قانونی ٹیم کے رکن ایڈووکیٹ بابر ستار نے انکم ٹیکس سے متعلق دلائل دیے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ شبر زیدی کا آرٹیکل پڑھ کر سنانا چاہتے ہیں، یہ آرٹیکل بہت اہم ہے کیونکہ وہ اب ایف بی آر کے چیئرمین ہیں۔
بابر ستار کا کہنا تھا کہ ویلتھ اسٹیٹمنٹ کا دولت سے کوئی تعلق نہیں، ان میں اور ریٹرن انکم میں بھی کوئی تعلق نہیں، انکم ٹیکس 2001 انکم سے متعلق ہے نہ کہ اثاثہ جات سے متعلق ہے۔
مزید پڑھیں: جسٹس عیسیٰ نے ٹیکس قوانین کی شق 116 کی خلاف ورزی نہیں کی، وکیل
وکیل کا کہنا تھا کہ ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں ہمیشہ ابہام ہی رہے ہیں، یہ اسٹیٹمنٹ اثاثوں کو ظاہر نہیں کرتی، اس پر جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ ویلتھ اسٹیٹمنٹ کسی بھی وقت جمع کرائی جا سکتی ہے۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ ویلتھ کا انکم کے ساتھ تعلق ہے، بغیر آمدن کے دولت تو نہیں بنتی، آمدن ہوگی تو دولت ہوگی، صرف حکومت کی دولت ریونیو سے آتی ہے۔
جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ اگر کسی نے ویلتھ اسٹیٹمنٹ جمع کرائی ہو لیکن مکمل آمدن نہ بتائی ہو تو کیا کیا جائے، جس پر بابر ستار نے کہا کہ ویلتھ اسٹیٹمنٹ ایسے جمع نہیں ہوجاتی اس کی بھی کچھ شرائط ہیں، نوٹس میں بتائے گئے وقت میں تمام تفصیلات دینا ہوتی ہے۔
وکیل نے عدالت کو بتایا کہ شہری کو اپنی اور اہل و عیال کی دولت سے متعلق تفصیلات دینا ہوتی ہے، جس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ایف بی آر کی شرائط کے مطابق ویلتھ اسٹیٹمنٹس دینا ہوتی ہیں۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ قانون میں لکھا ہے کہ 'over and above'، کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ شہری کو خود کفیل بیوی، بچوں کو بھی ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں ظاہر کرنا ہوتا ہے، میرے خیال میں تو یہ تشریح بنتی ہے۔
جس پر بابر ستار نے جواب دیا کہ نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے، ایف بی آر کی تاریخ میں ایسا واقعہ نہیں ہے کہ خود کفیل بیوی، بچوں کی معلومات دی جائیں۔
وکیل کی بات پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر تاریخ میں ایسا نہیں تو بھی معلومات دینی چاہئیں، ایف بی آر پوچھے تو بتا دے کہ وہ خودکفیل ہیں۔
ساتھ ہی جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ مجھے سمجھ آئی ہے کہ خود کفیل بیوی بچوں کی معلومات دینا ضروری ہے، اگر انکم ٹیکس کمشنر ضرورت محسوس کرے تو معلومات طلب کر سکتا ہے۔
عدالتی ریمارکس پر وکیل بابر ستار نے کہا کہ اگر کسی ذریعے سے کمشنر کو معلومات ملتی ہیں تو کمشنز مزید معلومات طلب کرسکتا ہے، جو فارم دیا گیا ہے اُسی کو ہی فل کرکے دینا ہوتا ہے، میں اپنے طور پر فارم کو تبدیل کرکے نہیں بھر سکتا۔
بابر ستار نے کہا کہ مجھے جو فارم ملا میں نے اُس کے مطابق معلومات دیں، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہم یہاں ویلتھ اسٹیٹمنٹ کے فارم کو دیکھنے کے لیے نہیں بیٹھے، ایک الزام ہے آپ اُس کا جواب دیں باریک بینیوں میں نہ پڑیں، آپ کے دلائل کا اصل نقطہ کیا ہے، بنیادی سوال یہ ہے کہ یہ رقم کہاں سے آئی۔
جس پر وکیل نے جواب دیا کہ یہ کوئی بنیادی سوال نہیں جو میں کہہ رہا ہوں وہ بنیادی سوال ہے، میرا اصل نقطہ یہ ہے کہ ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں صرف اپنی آمدن بتانی ہے، ویلتھ اسٹیٹمنٹ کی جو شرائط ہیں وہی پوری کرنی ہیں۔
اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ یہاں ہمارے پاس معاملہ ویلتھ اسٹیٹمنٹ کا نہیں، جس پر وکیل نے کہا کہ سارا معاملہ ہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ویلتھ اسٹیٹمنٹ پر ہے۔
دوران سماعت جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ کہا گیا ہے کہ آپ کے موکل نے بچوں کے اثاثے ظاہر نہیں کیے، قانون کے تحت وہ اثاثے ظاہر کرنے کے پابند نہیں، ساتھ ہی جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ جو اثاثے آپ کے نہیں آپ اسے کیسے ظاہر کرسکتے ہیں۔
اسی دوران جسٹس فیصل عرب نے بھی ریمارکس دیے کہ معاملہ ویلتھ اسٹیٹمنٹ کا نہیں بلکہ ظاہر اثاثوں سے متعلق ہے، مفروضوں پر مبنی الزامات لگائے گئے آپ ان کا جواب دیں، الزام یہ ہے کہ شاید منی لانڈرنگ کے ذریعے اثاثے بنائے گئے۔
عدالتی ریمارکس پر وکیل نے کہا کہ صدر مملکت کے پاس ایسا کونسا مواد تھا جس کی بنا پر الزام لگایا، بغیر شواہد کے الزامات لگائے گئے، اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کیا آپ کو کوئی نوٹس بھیجا گیا، جس پر بابر ستار نے کہا کہ ہر گز کوئی نوٹس نہیں بھیجا گیا، اسی بات پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پھر تو بات ہی ختم ہوگئی۔
اس پر بابر ستار نے کہا کہ پہلے یہ شرط نہیں تھی کہ بیرون ملک جائید اور اثاثے ظاہر کیے جائیں، اب ترمیم کر کے یہ ذمہ داری عائد کی گئی ہے، اگر کوئی شخص ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں غلط بیانی کرے تو اسے جرمانہ دینا ہوتا ہے لیکن اگر کسی نے اپنی خود کفیل بیوی، بچوں کے اثاثے ظاہر نہیں کیے تو کوئی جُرمانہ نہیں، یہی کچھ شبر زیدی نے اپنے آرٹیکل میں لکھا ہے۔
بابر ستار کے مطابق کمشنر جائیدادوں کا جائزہ لینے کے بعد دوبارہ نوٹس جاری کرسکتا ہے، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کیا اگر جائیدادوں کا پتہ چل جائے تو پھر نوٹس ہوتا ہے، اس پر جواب دیتے ہوئے وکیل نے کہا کہ جی اگر کوئی غلط بیانی ثابت ہو تو ایسا ہی ہے کہ علیحدہ شوکاز نوٹس جاری ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ‘چیئرمین اے آر یو کے پاس جسٹس عیسیٰ کے خلاف شواہد جمع کرنے کا اختیار نہیں‘
سماعت کے دوران جسٹس مظاہر عالم نے ریمارکس دیے کہ اثاثوں کے دوبارہ تخمینے کے لیے کمشنر پر پابندی ہے لیکن جرمانہ عائد کرنے کے لیے کوئی پابندی نہیں، اثاثوں کے دوبارہ تخمینے کے لیے کمشنر کی جانب سے نوٹس جاری کرنا ضروری ہوتا ہے تاہم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو کوئی نوٹس جاری نہیں کیا گیا۔
اس پر وکیل نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بیوی کے خود کفیل ہونے سے متعلق وفاق نے خود وضاحت کردی، بتایا گیا ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ کی ویلتھ اسٹیٹمنٹ اور انکم ٹیکس ریٹرن کی تفصیل خود وفاق نے دی، جسٹس عیسیٰ کی بیوی نے وزیراعظم عمران خان سے زیادہ ٹیکس دیا۔
اس پر جسٹس مقبول باقر نے پوچھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بیوی اتنی ہی مالی طور پر خود کفیل ہیں جتنے وزیراعظم؟ ساتھ ہی جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہمیں کسی اور بینچ میں بھی جانا ہے لہٰذا آپ کل یہیں سے دلائل شروع کریں۔
بعد ازاں مذکورہ معاملے کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست
خیال رہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں صدارتی ریفرنس کا سامنا کرنے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدارتی ریفرنس کو چیلنج کرتے ہوئے اپنی درخواست فل کورٹ کی تشکیل کے لیے عدالتی مثالیں دیتے ہوئے کہا تھا کہ فل کورٹ بنانے کی عدالتی نظیر سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بنام ریاست کیس میں موجود ہے۔
اپنے اعتراضات کی حمایت میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ ان کے خلاف ریفرنس 427 (دوسری درخواست) پر سپریم جوڈیشل کونسل نے اپنے فیصلے میں 'تعصب' ظاہر کیا اور وہ منصفانہ سماعت کی اپنی ساخت کھوچکی ہے۔
اپنی درخواست میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ وہ کوئی بھی ریفرنس کا سامنا کرنے کو تیار ہیں اگر وہ قانون کے مطابق ہو لیکن انہوں نے افسوس کا اظہار کیا تھا کہ ان کی اہلیہ اور بچوں کو مبینہ طور پر اذیت کا نشانہ بنایا گیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے موقف اپنایا تھا کہ درخواست گزار کی اہلیہ اور بچوں پر غیرقانونی طریقے سے خفیہ آلات اور عوامی فنڈز کے غلط استعمال کرکے سروے کیا گیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنسز
واضح رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کا معاملہ رواں سال مئی میں شروع ہوا اور ان پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے برطانیہ میں اپنی ان جائیدادوں کو چھپایا جو مبینہ طور پر ان کی بیوی اور بچوں کے نام ہیں۔
مزید پڑھیں: ’جسٹس فائز عیسیٰ کے اثاثوں کی تلاش کیلئے متعلقہ اتھارٹی سے اجازت نہیں لی‘
تاہم اس ریفرنس سے متعلق ذرائع ابلاغ میں خبروں کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت عارف علوی کو متعدد خطوط لکھے اور پوچھا کہ کیا یہ خبریں درست ہیں۔
بعدازاں لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل نے جج کی جانب سے صدر مملکت کو خط لکھنے اور ان سے جواب مانگنے پر ایک اور ریفرنس دائر کیا گیا تھا اور الزام لگایا تھا کہ انہوں نے ججز کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی۔
تاہم سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) نے اس ریفرنس کو خارج کردیا اور کہا کہ کئی وجوہات کی بنا پر کونسل کو صدر مملکت کو خطوط لکھنے کا معاملہ اتنا سنگین نہیں لگا کہ وہ مس کنڈکٹ کا باعث بنے اور اس کی بنیاد پر انہیں (جسٹس قاضی فائز عیسیٰ) کو سپریم کورٹ کے جج کے عہدے سے ہٹایا جاسکے۔