برطانیہ پر افغانستان اور عراق میں جنگی جرائم چھپانے کا الزام
لندن: برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اور سنڈے ٹائمز کی تحقیق میں برطانوی حکومت اور فوج پر برطانوی فوجیوں کی جانب سے افغانستان اور عراق میں شہریوں کے خلاف جنگی جرائم کے ٹھوس شواہد چھپانے کا انکشاف ہوا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق تحقیقق میں انکشاف کیا گیا کہ برطانوی حکومت کی جانب سے تنازعات میں موجود فوجیوں کے طرزِ عمل کی 2 انکوائریز کے لیکس میں فوجیوں کو بچوں کے قتل اور شہریوں کو ٹارچر کرنے کے جرائم میں ملوث پایا گیا۔
برطانوی حکومت اور فوج پر عائد کیے گئے الزامات میں ایلیٹ ایس اے ایس یونٹ کے اہلکار کی جانب سے قتل، بلیک واچ انفینٹری یونٹ کے ارکان کی جانب سے دوران حراست قیدیوں کی اموات، مارپیٹ، ٹارچر اور جنسی استحصال شامل ہیں۔
سنڈے ٹائمز اور بی بی سی کے پینوراما پروگرام کی جانب سے ایک سال کے دورانیے پر مشتمل تحقیقات میں مبینہ جنگی شواہد بے نقاب کرنے والے فوجی جاسوسوں نے کہا کہ سینئر کمانڈرز نے اسے سیاسی وجوہات کی بنا پر چھپایا۔
ایک تفتیش کار نے بی بی سی کو بتایا کہ 'برطانوی وزارت دفاع کا اس وقت تک کسی بھی رینک کے کوئی سپاہی کے خلاف کارروائی کا کوئی ارادہ نہیں تھا، جب تک یہ انتہائی ضروری نہ ہو اور وہ اس جھنجھٹ سے باہر نکلنے کا راستہ نہیں نکال سکتے تھے'۔
مزید پڑھیں: افغانستان سے فوجی انخلا کیلئے امریکا اور طالبان میں مذاکرات کا ایک اور دور ختم
تاہم برطانوی وزارت دفاع نے الزامات کو جھوٹ قرار دیا اور کہا کہ پراسیکیوٹرز اور تفتیش کاروں کے فیصلے آزاد تھے اور ان میں قانونی مشورہ شامل تھا۔
واضح رہے کہ یہ نئے الزامات جنگی جرائم کی 2 انکوائریز عراق ہسٹورک ایلیگیشن ٹیم (آئی ایچ اے ٹی) اور آپریشن نارتھ مور سے سامنے آئے جو 2017 میں کسی پروسیکیوشن کے بغیر ختم ہوگئی تھیں۔
برطانوی حکومت نے تحقیقات بند کرنے کا فیصلہ اس وقت کیا جب ایک وکیل فل شائنر جنہوں نے سیکڑوں الزامات ریکارڈ کیے تھے، انہیں وکالت سے روک دیا گیا تھا کیونکہ انہوں نے عراق میں لوگوں کو رقم دے کرکلائنٹس ڈھونڈے تھے۔
اس وقت ایمنسٹی انٹرنیشنل نے تحقیقات ختم کرنے کے فیصلے پر تنقید کی تھی اور سابق آئی ایچ اے ٹی اور آپریشن نارتھ مور کے کچھ تفتیش کاروں نے اب الزام عائد کیا ہے کہ فل شائنر کے اقدامات کو انکوائریاں بند کرنے کے لیے بہانے کے طور پر استعمال کیا گیا تھا کیونکہ اعلیٰ سطح پر غلطیوں کا انکشاف ہوا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: اب افغانستان میں امن کا 'صحیح وقت' ہے، اشرف غنی
سنڈے ٹائمز نے رپورٹ کیا کہ فوجی جاسوس نے جعلی دستاویزات کے الزامات سامنے لائے جو سینئر افسران کے خلاف پروسیکیوشن کے لیے کافی تھے۔
اس میں رپورٹ کیا گیا کہ ایس اے ایس سینئر ترین کمانڈرز کو انکوائریاں ختم ہونے سے قبل انصاف کے راستے میں حائل ہونے کی کوششوں پر پراسیکیوشن کے لیے ریفر کیا گیا تھا۔
سنڈے ٹائمز نے کہا کہ اگر برطانیہ اپنی فوج کا احتساب کرنے میں ناکام ہوتا دکھائی دیتا تو انکشافات انٹرنیشنل کرمنل کورٹ میں جنگی جرائم کی تحقیقات میں بدل سکتے تھے۔
برطانوی سیکریٹری خارجہ ڈومینک راب نے بی بی سی کو بتایا کہ قانونی چارہ کی کمی کے باوجود جھوٹے دعووں کی پیروی کو یقینی نہ بنانے میں توازن پیدا کیا گیا تھا۔
یہ خبر 18 نومبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی