• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

لاہور ہائیکورٹ نے وفاقی کابینہ کے فیصلے کی روح کو برقرار رکھا، شہزاد اکبر

شائع November 17, 2019 اپ ڈیٹ November 18, 2019
شہزاد اکبر نے کہا کہ قانون کے مطابق سزا یافتہ شخص کا نام ای سی ایل سے نہیں نکلا جا سکتا
— فوٹو: پی آئی ڈی
شہزاد اکبر نے کہا کہ قانون کے مطابق سزا یافتہ شخص کا نام ای سی ایل سے نہیں نکلا جا سکتا — فوٹو: پی آئی ڈی

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کے معاملے میں وفاقی کابینہ کے فیصلے کی روح کو برقرار رکھا۔

اسلام آباد میں اٹارنی جنرل انور منصور خان کے ہمراہ پریس کانفرنس میں شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ ہمیں نواز شریف کی واپسی کی ضمانت حلف نامے کی صورت میں مل گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ قانون کے مطابق سزا یافتہ شخص کا نام ای سی ایل سے نہیں نکلا جا سکتا لیکن وفاقی کابینہ نے نواز شریف کو انسانی بنیاد پر 'ون ٹائم' بیرون ملک جا کر علاج کی اجازت دی۔

مزید پڑھیں: نواز شریف منگل کو علاج کیلئے لندن روانہ ہوں گے، مریم اورنگزیب

شہزاد اکبر نے کہا کہ جو لوگ نواز شریف سے متعلق بات کرتے ہیں کہ وہ 3 مرتبہ کے وزیراعظم رہے تو انہیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ سابق وزیراعظم سپریم کورٹ آف پاکستان سے صادق و امین کی سند حاصل نہیں کرسکے تھے۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی نے کہا کہ ضمانتی بانڈ کی قانونی حیثیت نہیں تھی لیکن ہمیں نواز شریف کی واپسی یقینی بنانی تھی لیکن لاہور ہائیکورٹ نے حلف نامہ طلب کرلیا جس کے بعد اگر نواز شریف علاج کے بعد وطن واپس نہیں آئیں گے تو قانون کی گرفت میں آجائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ 'عدالت نے دونوں بھائی نواز شریف اور شہباز شریف سے حلف نامہ وصول کیا'۔

علاوہ ازیں ان کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ نے ضمانتی بانڈز کی شرط کو معطل کیا ہے جس پر سماعت ہوگی لیکن یاد رہے کہ نواز شریف نے ماضی میں کتنی مرتبہ وعدہ خلافی کی، اسے بھولنا نہیں چاہیے۔

مزید پڑھیں: نواز شریف کو نظام نے بہت زیادہ ریلیف دیا، اٹارنی جنرل

شہزاد اکبر نے کہا کہ وفاقی کابینہ نے شہباز شریف سے ضمانتی بانڈ طلب کیا تھا لیکن نواز شریف سے کوئی چیز نہیں مانگی تھی اور عدالت عالیہ نے دونوں سے حلف نامہ مانگا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ نے اپنے مختصر فیصلے میں حکومت کے موقف کو مزید تقویت بخشی اور حکومتی نمائندے کو رسائی دی کہ وہ نواز شریف کے علاج اور ان کی صحتیابی سے متعلق جائزہ لے سکے گا۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ 'اگر نواز شریف کسی دوسرے ملک جائیں گے تو ہم عدالتی حکم نامہ ساتھ لگا کر مذکورہ ملک کے حکام کو آگاہ کریں گے کہ یہ ہمارے ملک میں سزا یافتہ مجرم ہے اور طے شدہ شرائط کی بنیاد پر آپ کے پاس آرہے ہیں'۔

حلف نامے کے ذریعے نواز، شہباز شریف نے خود کو عدالت کے حوالے کردیا، اٹارنی جنرل

اس موقع پر اٹارنی جنرل انور منصور خان نے لاہورہائی کورٹ کے عبوری فیصلے پر قانونی پیچیدگیوں کا تذکرہ کیا اور کہا کہ عدالتی فیصلے میں بہت اہم باتیں ہیں۔

انور منصور نے کہا کہ عدالت نے واضح کردیا کہ کابینہ کا فیصلہ ماننے کے بعد ہی نواز شریف بیرون ملک جائیں گے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ موجودہ فیصلے کو پڑھ کر واضح ہوتا ہے کہ شریف برادران کا ٹریک ریکارڈ ٹھیک نہیں جس کی وجہ سے عدالت کو ان پر یقین نہیں تھا۔

مزید پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ: حکومت کی شرط مسترد، نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی ہدایت

علاوہ ازیں انہوں نے کہا کہ عدالت کو یقین نہیں تھا کہ یہ ٹھیک میڈیکل رپورٹ بھیجیں گے بھی یا نہیں اس لیے حکومتی نمائندے کو خصوصی اختیار دے دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ 'وفاقی حکومت کو ضمانتی بانڈز سے فائدہ اٹھانے کے لیے سول کورٹ میں جانا پڑتا اور یہ بہت وقت طلب تھا لیکن اب نواز شریف اور شہباز شریف نے حلف نامے کے ذریعے خود کو گارنٹی کے طور پر لاہور ہائی کورٹ کے حوالے کردیا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اگر نواز شریف واپس نہیں آتے تو توہین عدالت کی گرفت میں آجائیں گے'۔

اٹارنی جنرل نے مزید بتایا کہ جب نواز شریف کو ملنے والی 4 ہفتے کی مہلت ختم ہوگی تو انہیں دوبارہ عدالت سے توسیع کے لیے رابطہ کرنا پڑے گا۔

انور منصور خان نے کہا کہ 'جنوری کے مہینے میں یہ کیس دوبارہ لگے گا اور سماعت ہوگی'۔

لاہور ہائی کورٹ کی نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی ہدایت

خیال رہے کہ گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے خارج کرنے کا حکم دیتے ہوئے سابق وزیراعظم کو 4 ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دی تھی۔

جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کی درخواست پر سماعت کی اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی وفاقی حکومت کی ضمانتی بانڈ کی شرط کو مسترد کردیا تھا۔

عدالت نے نواز شریف اور شہباز شریف کے بیان حلفی پر انہیں علاج کے لیے باہر جانے کی اجازت دی۔

بیان حلفی

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے لاہور ہائی کورٹ میں دو مرتبہ بیان حلفی جمع کرایا جس میں انہوں نے نواز شریف کی وطن واپسی کو یقینی بنانے کے لیے حلف نامہ جمع کرایا۔

شہباز شریف نے دوسرے حلف نامے میں کہا کہ ‘میں یقین دلاتا ہوں کہ میرے بھائی نواز شریف کو 4 ہفتوں میں یا صحت کے حوالے سے ڈاکٹروں کی اجازت اور پاکستان واپسی کے لیے فٹ ہونے پر وطن واپسی یقینی بناؤں گا’۔

انہوں نے کہا کہ ‘میں یہ بھی یقین دلاتا ہوں کہ ڈاکٹروں کی رپورٹس کو سفارت خانے کے ذریعے عدالت کے رجسٹرار تک پہنچاؤں گا’۔

شہباز شریف نے اپنے بیان حلفی میں کہا کہ ‘اگر کسی موقع پر وفاقی حکومت کو معلوم ہوا کہ نواز شریف صحت یابی کے باوجود بیرون ملک مقیم ہیں تو پاکستانی ہائی کمیشن کے نمائندے کو تصدیق کے لیے ڈاکٹروں سے ملنے یا ان کی صحت کے حوالے سے تصدیق کرنے کی اجازت ہوگی’۔

دوسرے بیان حلفی میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی کہ ‘میں اپنے ماضی کے ریکارڈ کے مطابق 4 ہفتوں کے اندر یا جیسے ہی مجھے صحت یاب قرار دیا جائے اور میرے ڈاکٹروں کی جانب سے پاکستان آنے کے لیے فٹ قرار دیتے ہی پاکستان واپس آنے کی یقین دہانی کراتا ہوں’۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ ‘میں اپنے بھائی شہباز شریف کی جانب سے دیے گئے بیان حلفی پر عمل کرنے کا بھی پابند ہوں’۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024