اسلام آباد: 'پرائیوٹ ہسپتال زائد المعیاد ادویات فروخت کرنے میں ملوث ہوسکتے ہیں'
ڈرگ ریگو لیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) نے دعویٰ کیا ہے کہ پرائیوٹ ہسپتال اپنے ہی میڈیکل اسٹور پر زائد المعیاد ادویات فروخت کرنے میں ملوث ہو سکتے ہیں۔
ڈریپ نے مذکورہ انکشاف اپنی انکوائری میں کیا۔
مزید پڑھیں: جعلی ادویات کی فروخت: کوئٹہ میں 22 میڈیکل اسٹورز سیل
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق رواں ماہ کی 8 تاریخ کو ڈریپ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ اسلام آباد کے معروف پرائیوٹ ہسپتالوں میں دوران تفتیش انکشاف ہوا کہ یہاں زائد المعیاد ادویات فروخت ہورہی ہیں۔
فیڈرل انسپکٹر آف ڈرگس مہوش انصاری کی تیار کردہ رپورٹ کے مطابق اگرچہ کچھ ادویات تیار کرنے اور ختم ہونے کی تاریخوں میں بیچ کے نمبر تبدیل کردیے گئے تھے جس سے معلوم ہوا ہے کہ ادویات زائد المعیاد ہوگئی تھی۔
مذکورہ رپورٹ متعلقہ فورم کو پیش کی جائے گی جس کے بعد ذمہ داران کے خلاف قانونی کارروائی ہوگی۔
ایڈیشنل ڈائریکٹر کوالٹی ڈریپ عبدالستار سورانی نے ڈان کو بتایا کہ دس برس پہلے ایک واقعہ پیش آیا ہے جس میں ایک مریض نے دعویٰ کیا تھا کہ اسے نجی ہسپتال نے زائد العمیاد ادویات دی جس کے بعد اس نے اپنی شکایت کے ازالے کے لیے پاکستان میڈیکل ڈینٹل کونسل سمیت مختلف فورمز سے رابطہ کیا۔
یہ بھی پڑھیں: ادویات کے معیار کو میڈیکل اسٹور پر بھی ٹیسٹ کرنے کا فیصلہ
انہوں نے بتایا کہ 'وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے بھی اس معاملے کی تحقیقات کا آغاز کیا اور جب بات ہمارے پاس پہنچی تو ہم نے انسپکٹر کو ہسپتالوں کا جائزہ لینے کے لیے بھیجا اگرچہ اس بات کی تصدیق نہیں ہوسکی کہ مریضوں کو زائد المعیاد ادویات دی گئیں کیونکہ یہ ایک پرانا معاملہ تھا، لیکن انکشاف ہوا ہے کہ 2015 کے بعد بھی ہسپتالوں نے بوگس رسیدوں سے دوائیں خریدی تھیں، ادویات کے بیچ نمبروں سے معلوم ہوا کہ کچھ ادویات ختم ہوگئیں لیکن تاریخوں میں تبدیلی کے بعد بھی فروخت کی جارہی ہیں'۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ سرکاری شعبوں کے ہسپتالوں میں عام طور پر ناقص معیار کی ادویات کے بارے میں شکایات موصول ہوتی ہیں جس کی وجہ سے دوائیں فراہم کرنے والی کمپنیاں ذمہ دار قرار دی گئیں۔
عبدالستار سورانی نے بتایا کہ کمپنیاں اور نجی ہسپتال کی انتظامیہ اس میں شامل ہوسکتی ہے، برسوں کے دوران ڈریپ نے ایک ایسا نظام تیار کیا ہے جس کے تحت اب ہم ایسی شکایات پر سخت کارروائی کرتے ہیں۔
اس ضمن میں پاکستان فارماسسٹ ایسوسی ایشن کے جنرل سکریٹری احسان اللہ نے کہا کہ زائد المعیاد ادویات دو طرح کے اثرات مرتب کرتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ 'کچھ معاملات میں ایسی دوائیں غیر موثر ہوجاتی ہیں اور مریضوں کا علاج کرنا چھوڑ دیتی ہیں'۔
مزید پڑھیں: چیف جسٹس کا ڈریپ کے فیصلے تک ادویات کی قیمتیں برقرار رکھنے کا حکم
احسان اللہ نے مزید بتایا کہ 'کچھ معاملات میں فعال اجزا منفی اثرات دکھانا شروع کردیتے ہیں جس کی وجہ سے صحت کی متعدد پیچیدگیاں ہوسکتی ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ مریضوں کے ساتھ یہ ناانصافی ہے کیونکہ وہ اپنی بیماریوں کے علاج کے لیے دوائیں خریدتے ہیں لیکن زیادہ پیچیدگیاں پیدا کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ادویات کی خریداری کے دوران مریضوں کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ فارماسسٹ میڈیکل اسٹور چلا رہا ہے کیونکہ وہ (فارماسسٹ) ایسی چیزوں کی تصدیق کرسکتے ہیں۔
شکایت کنندہ ندیم اختر نے بتایا کہ انہیں زائد المعیاد ادویات فروخت کردی گئی اور پی ایم ڈی سی، ایف آئی اے اور دیگر متعلقہ فورموں میں شکایت درج کروائی۔
مزیدپڑھیں: ادویات کے معیار کو میڈیکل اسٹور پر بھی ٹیسٹ کرنے کا فیصلہ
ان کا کہنا تھا کہ ان ادویات کی وجہ سے دماغ سے متعلق پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑھ رہا ہے۔
ندیم اختر نے بتایا کہ 'مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ ادویات ہسپتال کے میڈیکل اسٹور سے زیادہ نرخوں پر فروخت کی جارہی ہیں کیونکہ ہسپتال نے ان پر زیادہ قیمتیں چھاپ دی ہیں اور مزید یہ کہ دوائیں ختم ہوگئیں۔