• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm

نواز شریف کے علاج کیلئے حکومت کی پیداکردہ آخری رکاوٹ بھی دور ہوگئی، شہباز شریف

شائع November 16, 2019
مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف لاہور ہائی کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کر رہے ہیں — فوٹو: ڈان نیوز
مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف لاہور ہائی کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کر رہے ہیں — فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کا کہنا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے نواز شریف کو علاج کی غرض سے پاکستان سے جانے کی اجازت دے دی ہے۔

لاہور ہائی کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف کا کہنا تھا کہ عدالت عالیہ نے اربوں روپے کے ضمانتی بانڈ کی حکومت کی شرط کو نامنظور کرتے ہوئے نواز شریف کو فی الفور بیرون ملک جانے کی اجازت دی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'عوام کی دعائیں رنگ لے آئی ہیں اور لاہور ہائی کورٹ نے نواز شریف کو انسانی بنیادوں پر بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کا فیصلہ سنایا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'پوری قوم کا دل کی گہرائیوں سے شکر گزار ہوں جنہوں نے نواز شریف کے لیے دعائیں کی تھیں'۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ 'نواز شریف کا علاج اور بیماری کی تشخیص، جو فوری ہونا چاہیے تھی، اس میں حکومت کی پیدا کردہ آخری رکاوٹ بھی دور ہوگئی ہے'۔

انہوں نے دعا کی کہ 'اللہ تعالیٰ, نواز شریف کے سفر کو مبارک کرے اور میاں نواز شریف صحت یاب ہوکر وطن واپس آئیں'۔

'نواز شریف کو باہر بھیجنے کیلئے ہنگامی تیاریاں'

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگ زیب نے عدالتی حکم کے بعد اپنے بیان میں کہا کہ عدالتی فیصلے پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہیں اور قائد نواز شریف کو علاج کے لیے بیرون ملک منتقل کرنے کی تیاریاں ہنگامی بنیادوں پر شروع کر دی گئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ڈاکٹروں کے مطابق نواز شریف کو طویل ہوائی سفر کے لیے طبی طور پر 48 گھنٹے درکار ہیں۔

مریم اورنگ زیب نے کہا کہ ‎فضائی سفر کے دوران نوازشریف کے پلیٹ لیٹس کو برقرار رکھنے اور دل کی کسی ممکنہ تکلیف سے بچاؤ کے لیے ڈاکٹر احتیاط تدابیر کے حوالے سے مشاورت کررہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ‎ڈاکٹر اس امر کو یقینی بنانے کی تگ و دو میں مصروف ہیں کہ دوران سفر کسی ممکنہ ایسی طبی پیچیدگی سے بچا جاسکے جو نوازشریف کی زندگی کے لیے مہلک ثابت ہوسکتی ہے۔

نواز شریف کی صحت کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ‎ڈاکٹروں کی اولین کوشش ہے نواز شریف کے پلیٹ لیٹس کو محفوظ سطح پر لایا جائے تاکہ وہ بحفاظت سفر کر سکیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ‎قوم کا شکریہ ادا کر تی ہوں کہ نواز شریف کے لیے دعائیں کیں اور ان سے اپنی مخلصانہ محبت اور وابستگی کا کا اظہار کرتی رہی، اس حوالے سے ‎میڈیا کا بھی بہت شکریہ ادا کرتی ہوں کہ مشکل حالات کے باوجود نواز شریف کی صحت اور علاج کے حوالے سے قوم کو پل پل باخبر رکھا۔

مریم اورنگ زیب نے کہا کہ ‎آج قوم کے لیے ایک بہت بڑے سبق کا دن ہے کہ خیر کی توفیق صرف اللہ تعالیٰ ہی عطا فرمانے والا ہے، ‎اللہ کریم کسی کو توفیق نہ دے تو اس کے ہاتھ سے کسی کے ساتھ خیر نہیں ہو سکتا۔

انہوں نے کہا کہ ‎حکمرانوں کے دل بڑے ہونے چاہئیں لیکن ‎حکومت کی جھوٹی ہمدردیاں قوم کے سامنے بے نقاب ہوگئی ہیں کیونکہ ‎حکومت خاص طور پر ان 20 دنوں میں نواز شریف کے علاج کی راہ میں مسلسل اور بلاجواز روڑے اٹکاتی رہی ہے۔

ترجمان مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ ‎ایک طرف حکومت نواز شریف کی صحت کی سنگینی کا اعتراف کرتی رہی اور دوسری جانب شرط بھی لگاتی رہی، ‎سرکاری میڈیکل بورڈ کی بیرون ملک علاج کی سفارش کو بھی نظر انداز کر دیا۔

واضح رہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کو علاج کے لیے غیر مشروط طور پر 4 ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی۔

لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کی جانب سے سابق وزیراعظم نواز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے اور غیر مشروط طور پر باہر جانے کے لیے دی گئی درخواست پر ان کے حق میں فیصلہ سنادیا۔

عدالت نے وفاقی حکومت کی جانب سے لگائے گئے 7 ارب روپے کے بونڈز کی شرط کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جب ہائی کورٹ نے ضمانت دی ہے تو اس شرط کا کوئی جواز نہیں بنتا ہے۔

حکومتی شرائط

واضح رہے کہ دو روز قبل کابینہ کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس کے بعد وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے اسلام آباد میں معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ نواز شریف کو 4 ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی مشروط اجازت دے دی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ نواز شریف یا شہباز شریف کو 7 ارب روپے کے سیکیورٹی بانڈ جمع کرانا ہوں گے جس کے بعد انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت ہوگی'۔

انہوں نے کہا تھا کہ '2010 کے ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) کے قوانین اور 1981 کے آرڈیننس میں بتایا گیا ہے کہ کسی بھی سزا یافتہ شخص کو ای سی ایل سے اس وقت تک نہیں ہٹا سکتے جب تک اس کی کوئی ضمانت نہ حاصل ہو'۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ 'نواز شریف کی طبیعت اگر ٹھیک نہ ہو تو قیام میں توسیع کی درخواست بھی دی جاسکتی ہے'۔

حکومتی شرط مسترد

بعد ازاں مسلم لیگ (ن) نے اپنے قائد نواز شریف کے بیرون ملک علاج کی شرط کا حکومتی فیصلہ مسترد کردیا تھا۔

وفاقی وزیر قانون اور معاون خصوصی احتساب کی پریس کانفرنس پر ردعمل دیتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا تھا کہ نواز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کو مشروط کرنے کا حکومتی فیصلہ عمران خان کے متعصبانہ رویے اور سیاسی انتقام پر مبنی ہے جسے ہم مسترد کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ نواز شریف کی عدالت سے ضمانت کے وقت تمام آئینی و قانونی تقاضے پورے اور ضمانتی مچلکے جمع کرائے جاچکے ہیں لہٰذا ان کا نام 'ای سی ایل' سے نکالنے کو مشروط کرنا حکومت کا ناقابلِ فہم فیصلہ ہے اور عدالت کے اوپر ایک حکومتی عدالت نہیں لگ سکتی۔

واضح رہے کہ نواز شریف العزیزیہ ریفرنس میں اڈیالہ جیل میں سزا کاٹ رہے تھے کہ اس دوران نیب نے انہیں چوہدری شوگر ملز کیس میں تفتیش کے لیے اڈیالہ جیل سے اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔

نیب کی تحویل کے دوران ہی سابق وزیراعظم کی صحت بگڑی تو انہیں لاہور کے سروسز ہسپتال میں منتقل کردیا گیا تھا۔

جہاں ان کی صحت کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا گیا اور انہیں علاج کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ سے 8 ہفتوں کے لیے خصوصی اجازت مل گئی جس کے بعد وہ ہسپتال سے جاتی امرا منتقل کردیے گئے۔

اس دوران سرکاری میڈیکل بورڈ نے بھی نواز شریف کو علاج کے لیے بیرون ملک بھیجنے کی تجویز دی تاہم نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا معاملہ وزارت داخلہ اور نیب کے مابین گھومتا رہا۔

بعدازاں وفاقی کابینہ کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ نواز شریف کو 4 ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دی جائے لیکن وہ 7 ارب روپے کے ضمانتی بانڈ جمع کرائیں گے۔

مذکورہ حکومتی فیصلے کو مسلم لیگ (ن) نے مسترد کردیا اور لاہور ہائی کورٹ میں نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست جمع کرادی۔

لاہور ہائی کورٹ نے درخواست کو قابل سماعت قرار دی۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024