فیس بک صارفین کے ڈیٹا کے حصول کے لیے پاکستانی درخواستیں بڑھ گئیں
پاکستان کی جانب سے سماجی رابطے کے پلیٹ فارم فیس بک سے صارفین کا ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے درخواستوں میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
فیس بک کی جانب سے 2019 کی پہلی ششماہی کی ٹرانسپیرنسی رپورٹ جاری کی گئی ہے جس کے مطابق حکومت پاکستان کی جانب سے فیس بک استعمال کرنے والے افراد کے بارے میں معلومات کے حصول کے لیے ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا۔
جنوری سے جون 2019 کے دوران پاکستان کی جانب سے فیس بک سے ایمرجنسی اور لیگل پراسیس کے نام پر مجموعی طور پر ڈیٹا کے حصول کے لیے 1849 درخواستیں دی گئیں، یہ تعداد جولائی سے دسمبر 2018 کے دوران 1752،جنوری سے جون 2018 کے دوران 1233، جولائی 2017 سے دسمبر 2017 کے دوران 1320 ، جنوری 2017 سے جون 2017 کے دوران 1050، جولائی 2016 سے دسمبر 2016 کے دوران 998، جبکہ جنوری 2016 سے جون 2016 کے دوران 719 تھی۔
فیس بک کے مطابق پاکستانی حکومت نے 2594 صارفین یا اکاﺅنٹس کے بارے میں ڈیٹا طلب کیا، یہ تعداد جولائی سے دسمبر 2018 کے دوران 2360 ، جنوری سے جون 2018 کے دوران 1609، جولائی سے دسمبر 2017 تک 1800، جنوری سے جون 2017 تک 1540، جولائی 2016 سے دسمبر 2016 تک 142، جبکہ جنوری سے جون 2016 کے دوران 1015 تھی۔
2594 اکاﺅنٹس یا صارفین کے لیے 1849 درخواستوں میں سے فیس بک نے 51 فیصد پر تعاون کرتے ہوئے حکومت کو کسی قسم کا ڈیٹا یا معلومات فراہم کیں۔
مجموعی طور پر لیگل پراسیس کے لیے 1674 درخواستوں میں سے 52 فیصد جبکہ 175 ایمرجنسی درخواستوں میں سے 41 فیصد پر فیس بک انتظامیہ کی جانب سے پاکستانی حکام کو ڈیٹا فراہم کیا گیا۔
اس سے ہٹ کر بھی پاکستان کی جانب سے فیس بک سے کسی جرم کی تحقیقات کے لیے 400 درخواستوں کے ذریعے 483 صارفین یا اکاﺅنٹس کاڈیٹا یا ریکارڈ محفوظ کرنے کی درخواست کی گئی۔
جولائی سے دسمبر 2018 کے دوران 488 درخواستوں کے ذریعے 709 صارفین یا اکاﺅنٹس، جنوری سے جون 2018 کے دوران 430 درخواستوں کے ذریعے 580 اکاﺅنٹس، جولائی سے دسمبر 2017 کے دوران 464 درخواستوں کے ذریعے 598 اکاؤنٹس ، جنوری سے جون 2017 کے دوران 399 درخواستوں کے ذریعے 613 اکاﺅٹس ، جولائی سے دسمبر 2016 میں 442 ، جبکہ جنوری سے جون 2016کے دوران 280 درخواستوں کے ذریعے 363 اکاﺅنٹس کا ڈیٹا یا ریکارڈ محفوظ رکھنے کی درخواست کی گئی تھی۔
اسی طرح اس عرصے میں فیس بک کی جانب سے پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی کی درخواست پر مقامی قوانین، توہین مذہب، عدلیہ مخالف، ملکی خودمختاری کے خلاف 5690 پوسٹس کو رسٹرکٹ کیا گیا جبکہ 2018 کی دوسری ششماہی کے دوران یہ تعداد 4174 تھی۔
مجموعی طور پر 6 فیس بک پروفائل، 128 پیجز اور گروپس ، 5376 پوسٹس اور 2 کمنٹس پر پابندی لگائی گئی جبکہ انسٹاگرام کے 7 اکاﺅنٹس اور 171 پوسٹس پر بھی اس کا اطلاق کیا گیا۔
دنیا بھر میں رواں سال کی پہلی ششماہی کے دوران دنیا بھر سے فیس بک کو ڈیٹا کے حصول کے لیے درخواستوں میں 16 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا اور امریکا نے سب سے زیادہ درخواستیں کیں، جس کے بعد بھارت، برطانیہ، جرمنی اور فرانس رہے۔
کمپنی نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اس نے اپریل سے ستمبر کے دوران 3.2 ارب جعلی اکاﺅنٹس کو سائٹ سے ہٹایا جبکہ بچوں پر تشدد اور خودکشی کی عکاس کروڑوں پوسٹس کو بھی ڈیلیٹ کیا گیا۔
اس سے قبل رواں سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران 2 ارب سے زائد جعلی اکاﺅنٹس کو ڈیلیٹ کیا تھا اور اس طرح مجموعی طور پر رواں سال 5 ارب سے زائد اکاﺅنٹس کے خلاف کارروائی ہوچکی ہے۔