نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست پر وفاقی حکومت سے جواب طلب
لاہور ہائی کورٹ نے نواز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کے لیے مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کی درخواست پر وفاقی حکومت سےتحریری جواب طلب کرتے ہوئے سماعت کو کل (جمعہ) تک کے لیے ملتوی کردیا۔
عدالت عالیہ میں جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے شہباز شریف کی درخواست پر سماعت کی۔
دوران سماعت شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ لاہور ہائیکورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس منگوائیں اور دونوں عدالتوں نے نواز شریف کی ضمانت منظور کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان انسانی معاملات پر زہریلی سیاست کررہے ہیں، شہباز شریف
ان کا کہنا تھا کہ 'وفاقی حکومت نے میڈیکل رپورٹس لیں اور ان کا بغور جائزہ لیا، نقل و حرکت ہر شخص کا بنیادی حق ہے'۔
جسٹس علی باقر نجفی نے استفسار کیا کہ 'حکومت نے کیا آرڈر کیے ہیں جس پر وکیل کا کہنا تھا کہ حکومت نے ایک دفعہ باہر جانے کہ اجازت دی ہے اور ساتھ شرائط بھی رکھی ہیں'۔
عدالت نے استفسار کیا کہ 'کیا شہباز شریف کا نام بھی ای سی ایل میں ہے جس پر وکیل نے بتایا کہ شہباز شریف کا نام بھی ای سی ایل میں تھا لیکن ہائیکورٹ نے ان کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیا۔
جسٹس علی باقر نجفی نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ 'کیا قومی احتساب بیورو (نیب) کی سفارش پر نام ای سی ایل میں شامل کیا گیا تھا، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا دائرہ اختیار لاہور ہائیکورٹ کا نہیں ہے؟'۔
وکیل امجد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ 'فاقی ادارے نے نام ای سی ایل سے نکالنا ہے، لاہور ہائیکورٹ کے پاس بھی اس کیس کو سننے کا اختیار ہے، ملک کی کسی بھی عدالت نے نواز شریف کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کا نہیں کہا تھا'۔
مزید پڑھیں: نواز شریف کو 4 ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی مشروط اجازت
ان کا کہنا تھا کہ 'نواز شریف نے نہ صرف حکومتی میمونڈرم کو چیلنج کیا ہے بلکہ ان کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے اقدام کو بھی چیلنج کیا ہے، حکومتی شرائط قانون کےمنافی ہیں'۔
بعد ازاں جسٹس علی باقر نجفی نے وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق اے خان کو روسٹرم پر طلب کیا۔
وفاقی حکومت کے وکیل نے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست کے قابل سماعت ہونے کے بارے میں اعتراض اٹھایا اور کہا کہ یہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا ہے اور اسے ہی اس کیس کو سننے کا اختیار ہے'۔
جسٹس باقر علی نجفی کا کہنا تھا کہ 'یہ بھی دیکھا گیا ہے جو شخص جہاں کا رہائشی ہو وہاں کی عدالت سے رجوع کر سکتا ہے، آپ یہ بتائیں کس نیب کے کہنے پر نواز شریف کا نام ای سی ایل میں ڈالا گیا ہے'۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ 'تمام ریکارڈ اسلام آباد میں ہے ہم ریکارڈ منگوا لیتے ہیں جس پر لاہور ہائیکورٹ نے کل (جمعہ 15 نومبر) تک وفاقی حکومت سے تحریری جواب طلب کر لیا۔
عدالت نے نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے معاملے پر وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کیے اور سماعت ملتوی کرتے ہوئے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ 'ایک اور سوال بھی ہے ،کیا نواز شریف باہر جانا بھی چاہتے ہی یا نہیں'۔
جس پر درخواست گزار شہباز شریف کے وکیل کا کہنا تھا کہ 'میں ہدایات لے کر عدالت کو آگاہ کر دیتا ہوں'۔
قبل ازیں نواز شریف کا نام ای ایل سی سے نکالنے کےلیے مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دی گئی تھی۔
مزید پڑھیں: ’ضمانتی بانڈ تاوان ہے‘ ن لیگ کا عدالت جانے کا فیصلہ
اپنی درخواست میں شہباز شریف نے وفاقی حکومت، وزارت داخلہ، وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) اور چیئرمین قومی احتساب بیورو کو فریق بنایا اور موقف اپنایا تھا کہ نواز شریف نے علاج کے لیے بیرون ملک جانا ہے لاہور ہائیکورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ سے ضمانت منظور ہو چکی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'وفاقی حکومت کو نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست دی لیکن نام ای سی ایل سے نہیں نکالا گیا'۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے ای سی ایل سے نام نکالنے کے لیے شرائط رکھی جا رہی ہیں، عدالت وفاقی حکومت کو نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دے۔
بعد ازاں جسٹس مامون الرشید شیخ نے درخواست سماعت کے لیے مقرر کی تھی۔
نواز شریف کو مشروط اجازت
واضح رہے کہ گزشتہ روز کابینہ کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس کے بعد وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے اسلام آباد میں معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ نواز شریف کو 4 ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی مشروط اجازت دے دی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ نواز شریف یا شہباز شریف کو 7 ارب روپے کے سیکیورٹی بانڈ جمع کرانا ہوں گے جس کے بعد انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت ہوگی'۔
انہوں نے کہا تھا کہ '2010 کے ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) کے قوانین اور 1981 کے آرڈیننس میں بتایا گیا ہے کہ کسی بھی سزا یافتہ شخص کو ای سی ایل سے اس وقت تک نہیں ہٹا سکتے جب تک اس کی کوئی ضمانت نہ حاصل ہو'۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ 'نواز شریف کی طبیعت اگر ٹھیک نہ ہو تو قیام میں توسیع کی درخواست بھی دی جاسکتی ہے'۔
حکومتی شرط مسترد
مسلم لیگ (ن) نے اپنے قائد نواز شریف کے بیرون ملک علاج کی شرط کا حکومتی فیصلہ مسترد کردیا تھا۔
وفاقی وزیر قانون اور معاون خصوصی احتساب کی پریس کانفرنس پر ردعمل دیتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا تھا کہ نواز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کو مشروط کرنے کا حکومتی فیصلہ عمران خان کے متعصبانہ رویے اور سیاسی انتقام پر مبنی ہے جسے ہم مسترد کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ نواز شریف کی عدالت سے ضمانت کے وقت تمام آئینی و قانونی تقاضے پورے اور ضمانتی مچلکے جمع کرائے جاچکے ہیں لہٰذا ان کا نام 'ای سی ایل' سے نکالنے کو مشروط کرنا حکومت کا ناقابلِ فہم فیصلہ ہے اور عدالت کے اوپر ایک حکومتی عدالت نہیں لگ سکتی۔